ارشادِ باری ہے:وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴)(پ15،بنی اسرائیل:34) ترجمہ کنز الایمان:اورعہدپوراکروبے شک عہد سےسوال ہوناہے۔

وعدے کی تعریف اور اس کا حکم:وہ بات جسے کوئی پورا کرنا خود پر لازم کرلےوعدہ کہلاتا ہے۔(معجم وسیط، 2/1007)حکیم الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے۔مسلمان سے وَعدہ کرو یا کافر سے،عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے، اُستاذ،شیخ، نبی،اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عُذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو وہ گنہگار نہیں۔(مراٰۃ المناجیح،6/483،492،ملتقطاً)

معاشرے میں ہمیں بہت سارے لین دین کے معاملات میں ایک دوسرے سے واسطہ پڑتا ہے اور بات کی پختگی کے لیے وعدہ بھی کرتی ہیں اور وعدے کو پورا کرنا ہم پر لازم ہوجاتا ہے اور نہ کرنے کی صورت میں معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے اور آئے روز نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔قرآنِ کریم کے ساتھ ساتھ احادیثِ مبارکہ میں بھی وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے جن میں سے چند احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں:

1-حدیث شریف میں ہے:جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے،اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول نہ ہوگا نہ نفل۔(بخاری،1/616، حدیث: 1870)وعدہ کرتے وقت اگر کسی کی نیّت وعدہ خلافی کی ہو مگر اِتفاقاً پورا کردے تو پھر بھی اُس بَدنیّتی کی وجہ سے گنہگار ہے۔ ہروعدے میں نیّت کا بڑا دخل ہے۔( مراٰۃ المناجیح، 6/492)

2-نبیِّ صادق و امینﷺ کا ارشاد ہے:اس کا کچھ دِین نہیں جو وعدہ پورا نہ کرے۔ (معجم کبیر،10/227، حدیث:10553)

3-حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔(مسند امام احمد،4/271،حدیث: 12386)

4- حدیثِ مبارک ہے:جس میں یہ چار باتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے: (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3) جب معاہدہ کرے تو اسے توڑ دے اور (4) جب جھگڑا کرے تو گالیاں دے۔ اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت پائی جائے تو اس میں نفاق کا ایک حصہ موجود ہے، یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے۔ ( بخاری،2/370،حدیث: 3178)

5-حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پُرنور ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب اللہ پاک اولین و آخرین کو جمع فرمائے گا تو عہد توڑنے والے ہر شخص کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی کا جھنڈا ہے۔(بخاری،4/146،حدیث:6177)(مسلم، ص 900، حدیث: 1735)

اس سے یہ معلوم ہوا کہ عہد شکنی کی بناپر انسان دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ذلیل ورسوا ہوتا ہے اور اللہ پاک کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔اللہ پاک ہمیں ایفائے عہد کرنے والوں میں سے بنائے۔ آمین