بیشک زبان وعدہ کرنے میں زیادہ سبقت کرتی ہے اور بعض اوقات نفس اس کو پورا نہیں کر پاتا یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور یہ نفاق کی علامت میں سے ہے۔قرآنِ پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔

وعدہ خلافی کی تعریف:وعدہ کرتے وقت ہی یہ نیت ہو کہ جو کہہ رہی ہوں وہ نہیں کروں گی تو یہ وعدہ خلافی ہے۔مثلاً وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا کر دوں گی لیکن دل میں ہے کہ نہیں کروں گی۔

وعدہ خلافی: پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا اور حرام کام ہے۔ اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گی تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اس کو پورا کرنا مستحب ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)

حدیثِ مبارکہ:1-فرمانِ مصطفٰے ﷺ ہے:منافق کی تین نشانیاں ہیں:1)جب بات کرے جھوٹ بولے۔ 2)جب وعدہ کرے خلاف ورزی کرے۔3)جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)

حدیثِ مبارکہ:2-حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:وعدہ قرض کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)

حدیثِ مبارکہ:3-حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی شخص نے اپنے مسلمان بھائی سے وعدہ کیا تھا اس کا پورا کرنے کی نیت بھی ہے لیکن کسی سبب کی وجہ سے پورا نہ کر پایا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔( احیاء العلوم، جلد 3) (ترمذی،4/287،حدیث:2642)

حدیثِ مبارک:4-جھوٹ نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔(احیاء العلوم، جلد 3)

وعدہ خلافی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے اسباب:

مال کی محبت: بعض اوقات کسی سے پیچھا چھڑانے کے لیے رقم دینے کا وعدہ کرلیا جاتا ہے اور دل میں نہ دینے کا ارادہ ہوتا ہے۔

خود غرضی: جیسے کسی سے اپنا مطلب نکالنے کے لیے کہہ دیا کہ پہلے تو میرا یہ کام کر دو پھر میں تمہارا کام کروں گا اور دل میں ہے کہ میں بعد میں اس کے ہاتھ ہی نہیں آؤں گا۔

وعدہ خلافی کے گناہ سے محفوظ رہنے کے لئے: آخرت کو کثرت سے یاد کیجئے تاکہ دنیا اور اس کے سازو سامان کی محبت دل سے نکلے،لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے۔وعدے کومعمولی مت جانیے۔اسلام اور معاشرے میں اس کی اہمیت کو سمجھیے۔ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے۔ نیک خواتین کی صحبت اختیار کیجئے۔