وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے استاد شیخ نبی اللہ پاک سے کئے ہوئے تمام وعدے پورے کرو اگر وعدے کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/483،492 ملتقطا)

غوث پاک اور ایفائے عہد: غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا، ایک بار اس نے مجھے ایک جگہ بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک وہاں بیٹھا رہا پھر وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا، ایسا تین بار ہوا آخری بار وہ آیا اور کہا: میں خضر ہوں۔(اخبار الاخیار، ص 12)

آیات مبارکہ:

ارشاد ربانی ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

وَ لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَؕ-وَ كَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَّسْــٴُـوْلًا (۱۵) (پ 21، الاحزاب: 15) ترجمہ: اور بے شک اس سے پہلے وہ اللہ سے عہد کر چکے تھے کہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ کا عہد پوچھا جائے گا۔

وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۹۱) (النحل: 91) ترجمہ: اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث: 1047)

2۔ اس شخص کا کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔ (معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)

3۔ حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے نبی کریم ﷺ سے کوئی چیز خریدی تھی اس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی، میں نے وعدہ کیا اسی جگہ لاکر دیتا ہوں، میں بھول گیا اور 3 دن کے بعد یاد آیا میں گیا تو آپ اسی جگہ موجود تھے، ارشاد فرمایا: اے نوجوان تو نے مجھے زحمت میں ڈال دیا، میں 3 دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4996)

4۔ حضور ﷺ نے حالتِ جنگ میں بھی وعدہ پورا فرمایا، چنانچہ غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی افرادی قوت کم اور کفار کا لشکر تین گنا سے بھی زیادہ تھا، حضرت حذیفہ اور حضرت سہیل رضی اللہ عنہما دونوں صحابہ کہیں سے آ رہے تھے کہ راستے میں کفار نے دھر لیا اور کہا: تم محمد ﷺ کے پاس جا رہے ہو؟ جب ان دونوں حضرات نے شریکِ جنگ نہ ہونے کا عہد کیا تب کفار نے انہیں چھوڑا، آپ ﷺ نے سارا ماجرا سن کر دونوں کو الگ کر دیا اور فرمایا: ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ہمیں صرف اللہ کی مدد درکار ہے۔ (مسلم، ص 763، حدیث: 4639)