وہ بات جسے
کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ اگر وعدہ کرنے والا پورا نہ
کرنے کی نیت سے کرے گا تو وہ جھوٹ جان بوجھ کر بولنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور
ایسا وعدہ جس کو پورا کرنے کی نیت ہو تو ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا
کرنا مستحب ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ تمہارے
بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث: 1047)
2۔ اس شخص کا
کچھ دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔ (معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
3۔ عہد توڑنے
والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن
فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔ (بخاری، حدیث: 6178)
4۔ منافق کی
تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، جب اس کے پاس
امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)
ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ اَوْفُوْا
بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
5۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
جب
قول کہو اس کو نبھاؤ بھی تم جب
عہد کرو اس کو بچاؤ بھی تم