وعدے کو پورا کرنا وعدہ نبھانا اسلام میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے اسے ایفائے عہد کہا جاتا ہے اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔جس کا حکم رب تبارک و تعالیٰ نے دیا ہے اس کی خلاف ورزی کرنا عہد شکنی کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اپنے عہد، وعدہ کو پورا کرنا مسلمان پر شرعا واجب و لازم ہے۔ احادیث مبارکہ میں وعدہ خلافی کی شدید ترین مذمت آئی ہے، چنانچہ

احادیث مبارکہ:

1۔ جو کسی مسلمان سے عہد شکنی (وعدہ خلافی) کرے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

2۔ جب اولین و آخرین کو اللہ پاک قیامت کے دن جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔(مسلم، ص 739، حدیث: 1735) روز حشر جھنڈا گاڑ کر پکارا جائے گا یہ جھنڈا فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے وعدہ خلاف کس قدر رسوا ہوگا کہ اس کی دغا کو سب پر ظاہر کیا جائے گا اور سب کے سامنے ذلیل و رسوا ہوگا اور ایسے شخص کے نفل تو دور فرائض بھی رب کی بارگاہ میں قبول نہ ہوں گے۔

3۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، امانت رکھیں تو خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)وعدہ خلاف منافق ہے یعنی جو وعدہ کا خیال نہیں کرتا اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ وعدہ خلافی مسلمان کو ایذاء دینے کی ایک صورت ہے جس شخص سے عہد توڑا جائے گا یقینا اس شخص کو اس عمل سے بہت تکلیف پہنچے گی اور مسلمان کو ایذاء دینا تو حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ فرمانِ مصطفیٰ ہے: جس نے بلاوجہ کسی مسلمان کو ایذاء دی اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ کو ایذاء دی۔(فتاویٰ رضویہ، 24/342) سورۃ الاحزاب آیت 57 میں ارشاد فرمایا: بے شک جو ایذاء دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو تو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار رکھا ہے۔ (تکلیف نہ دیجیے، ص 4)وعدہ خلافی ایذائے مسلم کا سبب ہے اور بے شک اسلام ہمیں معاشرے میں رہنے کا ڈھنگ سکھاتا ہے، اگر کوئی شخص وعدہ کر کے اسے پورا نہیں کرتا تو آخرت میں تو اس کی پکڑ ہے ہی دنیا میں بھی وہ شخص عزت و وقار نہیں پاتا، کیونکہ ایسے شخص پر کوئی اعتبار نہیں کرتا، اس کی زبان پر بھروسا نہیں کیا جاتا، دین اسلام اخلاقیات کا درس دیتا ہے اور وعدہ کی پاسداری اخلاقیات کا اہم ترین جز ہے، مومن کی زبان سچی اور ثابت قدم ہوتی ہے، اگر کوئی شخص اپنی زبان سے پھرتا ہے تو احادیث میں منافق کہلاتا ہے اور ملعون کہلاتا ہے، وعدہ خلاف دھوکا باز بھی ہوتا ہے کہ اپنے بھائی سے وہ جھوٹا وعدہ کر کے دھوکا دیتا ہے۔

فرمانِ مصطفیٰ: جس نے مسلمان کو تکلیف یا دھوکا دیا ملعون ہے۔ (تکلیف نہ دیجیے، ص 4) مزید ارشاد فرمایا: جو شخص دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔(مسلم، حدیث: 191)

اگر درجہ بندی کی جائے تو دو طرح کے لوگ ہیں جنتی اور جہنمی، نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب بالیقین جنتی ہیں، حدیث شریف میں بیان ہو گیا کہ وہ ہم میں سے نہیں یعنی وہ جنتی نہیں ہے اس کا مطلب ظاہر ہے کہ دھوکا باز کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ وعدہ کو پورا نہ کرنا اگر جان بوجھ کر ایسا کیا یا پھر جھوٹا وعدہ کرنا وعدہ خلافی ہے اور اس کی مذمت نبی کریم ﷺ اور رب تبارک و تعالیٰ نے فرمائی ہے، ہمیں بھی وعدے کی پاسداری کرنی چاہیے امیر اہلسنت سے بیعت ہوتے وقت ہم بھی وعدہ لیتے ہیں ہمیں اس وعدہ کو بھی پورا کرنا چاہیے۔ کسی دانشمند کا قول ہے کہ خوشی کے وقت پر وعدہ نہ کرو کہ ابھی عالم خوشی میں کہیں ایسی بات نہ کر جاؤ کہ بعد میں اس کو پورا کرنا تمہارے لیے پریشانی کا باعث ہو۔ اسی طرح امیر اہلسنت فرماتے ہیں کہ پہلے تولو بعد میں بولو! کیونکہ مومن کی زبان بہت قیمتی ہے تو کہیں جذبات میں آکر آپ کچھ کہہ جائیں اور پھر وہ وعدہ پورا نہ کر پائیں تو یہ بھی وعدہ خلافی کے زمرے میں آ سکتا ہے، لہٰذا جب بھی کبھی بات کی جائے تو سوچ سمجھ کر بات کی جائے اسی میں آپ کی بھلائی ہے۔