ہم قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں مختلف مقامات پر وعدہ کرنے اور اس کو پورا کرنے پر ملنے والے فضائل و برکات کے متعلق سنتے ہیں لیکن اگر وعدہ کو پورا نہ کریں تو وعدہ خلافی کرنے کی بھی مذمت بیان کی گئی ہے، قرآن و احادیث میں وعدہ خلافی کے بارے میں کیا احکام ہیں؟ وعدہ خلافی کیا ہے؟ کس کی علامت ہے؟ اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ کسی بھی انسان کو اس کی موجودہ حالت کے مطابق علم حاصل کرنا ضروری ہے یہاں پر وہ چیز بیان ہوگی جس سے بچنا چاہیے گناہ کا علم حاصل کرو اس لیے نہیں کہ تم اس میں جا پڑو بلکہ اس لیے کہ گناہوں سے بچ سکو۔ قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶) (پ 10، الانفال: 55-56) ترجمہ کنز الایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔

تفسیر: صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں آیت مبارکہ "ڈرتے نہیں" کے تحت فرماتے ہیں: خدا سے نہ عہد شکنی کے خراب نتیجے سے اور نہ اس سے شرماتے ہیں باوجود یہ کہ عہد شکنی ہر عاقل کے نزدیک شرمناک جرم ہے اور عہد شکنی کرنے والا سب کے نزدیک بے اعتبار ہو جاتا ہے جب اس کی بے غیرتی اس درجہ تک پہنچ گئی تو یقینا وہ جانوروں سے بد تر ہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 171)

وعدہ خلافی بری خصلت ہے جس میں انسان بسا اوقات مبتلا ہو ہی جاتا ہے جیسا کہ کسی نے کوئی کام کرنے کا وعدہ کیا اور وعدہ کرتے وقت نیت میں فریب ہو تو وعدہ خلافی ہوگی اور وہ گنہگار ہوگا، ہر وعدے میں نیت کا بڑا دخل ہے اور اگر کسی نے کوئی کام کرنے کا وعدہ کیا اور وعدہ پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گناہگار نہیں ہوگا وعدے کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے وعدہ خلافی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے، آئیے وعدہ خلافی کی مذمت پر 5 فرامین مصطفیٰ ملاحظہ کریں:

1۔ اللہ کے محبوب ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2۔ جو مسلمان عہد شکنی کرے اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

3۔ ہر عہد شکنی کرنے والے کی سرین (یعنی بدن کا وہ حصہ جس کے بل انسان بیٹھتا ہے اس) کے پاس قیامت میں اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہوگا۔ (مسلم، ص 956، حدیث: 1738)

4۔ لوگ اس وقت تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود، 4/166، حدیث: 4347)

5۔ اللہ پاک فرماتا ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52، حدیث: 2227)

وعدہ خلافی کا حکم: میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 25 صفحہ 69 پر فرماتے ہیں: الاشباہ و النظائر میں ہے وعدہ جھوٹا کرنا حرام ہے۔وعدہ خلافی کرنا مؤمنوں کی شان نہیں ہے، حضور اکرم ﷺ، صحابہ کرام اور دیگر بزرگان دین نے کبھی کسی کے ساتھ بد عہدی نہیں فرمائی۔ آئیے وعدے کو پورا کرنے کی اہمیت پر نبی کریم ﷺ کا واقعہ ملاحظہ کرتے ہیں، چنانچہ

حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اعلانِ نبوت سے پہلے میں نے حضور ﷺ سے کچھ سامان خریدا اسی سلسلے میں آپ کی کچھ رقم میرے ذمے باقی رہ گئی، میں نے آپ سے کہا کہ آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی گھر سے رقم لاکر دیتا ہوں آپ نے اسی جگہ رہنے کا وعدہ فرما لیا، گھر آکر میں وعدہ بھول گیا پھر تین دن بعد مجھے یاد آیا تو میں رقم لے کر اسی جگہ پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں آپ اسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے میرا انتظار کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر آپ کی پیشانی مبارکہ پر بل نہیں آیا اس کے سوا آپ نے اور کچھ نہیں فرمایا کہ اے نو جوان تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا کیونکہ میں اپنے وعدے کے مطابق تین دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔

نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور وعدہ پورا کرنا رسول اللہ ﷺ کی سیرت مبارکہ کا درخشاں پہلو ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ہر حالت میں اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے، حضور فرماتے ہیں کہ وعدہ خلافی یہ نہیں کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی بھی ہو، بلکہ وعدہ خلافی یہ ہے کہ آدمی وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی نہ ہو۔ (الجامع الاخلاق، 2/60)

وعدہ خلافی سے بچنے کا طریقہ: جب بھی کوئی وعدہ کریں تو ساتھ میں ان شاء اللہ ضرور کہا جائے تو اگر دل میں ارادہ نہ بھی ہو تو گناہ سے بچ جائیں گے اس کے علاوہ بندہ فکرِ آخرت کا ذہن بنائے اپنے آپ کو رب کی بے نیازی سے ڈرائے اپنی موت کو یاد کرے یہ مدنی ذہن بنائے کہ کل قیامت کے دن خدا نخواستہ اس وعدہ خلافی کے سبب رب ناراض ہو گیا تو میرا کیا بنے گا؟ اس خوف سے بندہ وعدہ خلافی کرنے سے بچے گا۔

اللہ پاک ہمیں اپنے حبیب کے صدقے اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں وعدہ خلافی جیسے موذی مرض سے نجات عطا فرمائے۔ آمین