وہ بات جسے
کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) وعدہ
پورا کرنے کا حکم قرآن و حدیث سے ملتا ہے لیکن آج بھی ہمارے معاشرے میں وعدہ
خلافی عام ہوتی جا رہی ہے، آئیے وعدہ خلافی کی مذمت پر چند احادیث مبارکہ سنتی
ہیں۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ قیامت کے
دن عہد شکنی کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ
فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (بخاری، 4/149، حدیث: 4177)
2۔ ہر عہد شکن
کے لیے قیامت کے دن ایک نیزہ گاڑا جائے گا۔ (ترمذی: جلد 1، حدیث: 1518)
3۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے
اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
4۔ لوگ اس وقت
ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود، 4/144،
حدیث: 4347)
5۔ رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: میں قیامت کے دن تین شخصوں کا مد مقابل
ہوں گا: ایک وہ شخص جو میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے، دوسرا وہ شخص جو
آزاد کو بیچے پھر اس کی قیمت کھائے، تیسرا وہ شخص جو مزدور سے کام پورا لے اور اس
کی مزدوری نہ دے۔ (بخاری، 2/52، حدیث: 2227)
معاشرتی
اثرات:
ہم نے احادیث مبارکہ میں تو وعدہ خلافی کی مذمت سنی لیکن اس کے بہت سے معاشرتی
اثرات بھی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں: وعدہ خلافی کرنے والے پر لوگ بھروسا نہیں
کرتے، وعدہ خلافی کرنے سے امن و امان قائم نہیں رہتا، وعدہ خلافی کرنے سے آپس میں
نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، اس کے اور بھی بہت سے معاشرتی اثرات ہیں۔ اللہ پاک ہمیں عہد
پورا کرنے والا بنائے کہ ہم جو عہد کریں تو اسے پورا بھی کریں، اگر کبھی وعدہ
خلافی کرنے کا خیال بھی ذہن میں آئے تو احادیث مبارکہ میں اس کی مذمت کو ذہن میں رکھتے
ہوئے اس سے بچنا چاہیے اللہ پاک ہمیں کسی سے وعدہ خلافی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین