بے شک زبان
وعدہ کرنے میں بہت زیادہ سبقت کرتی ہے پھر بعض اوقات نفس اس کو پورا نہیں کرتا تو
یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے، وعدے کو معمولی مت جانیے، اسلام اور معاشرے میں اس کی
اہمیت کو سمجھیے کہ وعدہ پورا کرنا اسلام میں بھی پسندیدہ عمل ہے مسلمان دنیا کی
محبت کی خاطر وعدہ خلافی کر دیتے ہیں حالانکہ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی تو
آخرت ہے، آخرت کو کثرت سے یاد کریں تاکہ دنیا اور اس کے ساز و سامان کی محبت دل
سے نکلے۔
وعدہ
خلافی کی تعریف:
وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ خلافی
ہے، معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا بد عہدی کہلاتا ہے۔
آیات
مبارکہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا
بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ
6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ بالعقود سے مراد اللہ کی حرام، حلال اور فرض
کردہ اشیاء اور ان میں کی گئی حد بندیاں ہیں۔ اسی وجہ سے امام ضحاک نے فرمایا: یہ
وہ چیزیں ہیں جنہیں نبھانے کا اللہ نے وعدہ لیا ہے کہ وہ اس کے حلال، حرام اور فرض
امور جیسے نماز وغیرہ ادا کریں گے۔
وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی
اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ
عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ(۵۶) (پ 10، الانفال: 55-56) ترجمہ کنز
الایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور
ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں
اور ڈرتے نہیں۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت اور
اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ وعدہ قرض کی مثل ہے بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے، (موسوعۃ ابن
ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457) اللہ پاک نے
اپنی کتاب عزیز میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ
الْوَعْدِ
(مریم: 54) ترجمہ کنز العرفان: بے شک وہ وعدے کا سچا تھا۔
3۔ تین عادتیں
ایسی ہیں کہ جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگرچہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اور یہ گمان
کرے کہ وہ مسلمان ہے: بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، امانت
رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، 1/237، حدیث: 257)
حدیث
کا مصداق:
حدیث میں وعدہ خلافی کا مصداق وہ شخص ہے جس کا عزم یہ ہو کہ وہ وعدہ پورا نہیں کرے
گا یا وہ جو بغیر کسی عذر کے وعدہ پورا نہ کرے، رہا وہ شخص جس کا وعدہ پورا کرنے
کا عزم ہو پر اسے ایسا کوئی عذر آجائے جو اسے وعدہ پورا کرنے سے روک دے تو وہ
منافق نہیں ہوگا۔
بد
عہدی کا حکم:
عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بد عہدی کرنا حرام اور
جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
وعدہ
خلافی کے نقصانات:
وعدہ خلافی کی بہت سی وعیدیں اوپر احادیث اور آیات مبارکہ میں بیان کی گئی ہیں،
جیسا کہ آیت مبارکہ میں بھی بیان کیا گیا کہ جو شخص وعدہ خلافی کرتا ہے یعنی وعدہ
کرنے کے بعد اسے توڑ دیتا ہے تو وہ شخص سب جانوروں سے بد تر ہے اور یہ ظاہر و باطن
مرض (وعدہ خلافی) ہمارے معاشرے میں بھی بہت پھیلا ہوا ہے اور اخروی نقصانات کے
ساتھ ساتھ اس کے دنیوی بھی بہت نقصانات ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: لوگ وعدہ خلافی
کرنے والے شخص کی بات پر اعتماد نہیں کرتے، جو شخص وعدہ خلافی کرتا ہے لوگوں میں
اپنی عزت و وقار کھو بیٹھتا ہے، وعدہ خلافی کرنے والے شخص کے مال میں برکت زائل
ہوتی چلی جاتی ہے۔
وعدہ خلافی کے
گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب ہیں جس وجہ سے انسان وعدہ خلافی کرتا ہے: مال سے
محبت کی وجہ سے انسان وعدہ خلافی کرتا ہے اور یہ دنیوی نفع ہے جو کہ محض بیوقوفی
ہے، حب دنیا یعنی دنیا سے محبت کی وجہ سے بھی انسان بد عہدی کرتا ہے یعنی بندہ کسی
نہ کسی دنیوی غرض کی خاطر بد عہدی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، وعدہ
خلافی کا ایک سبب جہالت بھی ہے کہ جب بندہ غدر جیسی موذی بیماری کے وبال سے ہی
واقف نہ ہوگا تو اس سے بچے گا کیسے؟
درس: ہر
انسان کو چاہیے کہ آخرت کو کثرت سے یاد کرے تاکہ دنیا اور اس کے ساز و سامان کی
محبت دل سے نکلے اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا ذہن بنے، نیک اور متقی پرہیزگار
لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے جن کے پاس بیٹھنے سے اخلاق اچھے ہوں اور آخرت کی
تیاری کرنے کا ذہن بنے، کیونکہ دنیا کی محبت کئی برائیوں کی جڑ ہے جو شخص دنیا کی
محبت جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے اس کے لیے دیگر کئی گناہوں کے دروازے کھل
جاتے ہیں، یقینا سمجھدار وہی ہے جو جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا ہی دنیا میں
مشغولیت رکھے اور فقط اپنی اخروی زندگی کی تیاری کرتا رہے۔