ہمارے معاشرے میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی برائی وعدہ خلافی بھی ہے، ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے، خواہ وہ کاروباری معاملات ہوں یا کوئی ادھار چیز لینی ہو، شادی وغیرہ کا معاملہ ہو یا پھر سیاسی معاملات ہوں گویا کہ طرح طرح کے معاملات میں جھوٹا وعدہ کیا جاتا ہے اور پھر مقصد پورا ہو جانے کے بعد اپنے اس کیے ہوئے جھوٹے وعدے کو بھول جاتے ہیں اور یوں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وعدہ خلافی کی تعریف: وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا یہ وعدہ خلافی ہے۔

مثالیں: کسی شخص سے مقررہ وقت پر آنے کا وعدہ کیا لیکن دل میں یہ نیت ہے کہ نہیں آؤں گا۔ وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا کردوں گا لیکن دل میں ہے کہ نہیں کروں گا۔

وعدہ خلافی کے متعلق احکام: وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ہے جو کہ حرام کام ہے، اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے، جب وعدے کو کسی چیز کے حاصل ہونے یا حاصل نہ ہونے کے ساتھ معلق کیا گیا ہو تو جب وہ شرط پائی جائے گی وعدہ پورا کرنا لازم ہوگا، مثلا کسی سے کہا کہ یہ چیز فلاں شخص کو بیچ دو اگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو میں ادا کروں گا پھر خریدار نے قیمت ادا نہیں کی تو اب اس پر قیمت ادا کرنا لازم ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)

آیت مبارکہ: اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔منافق کی 3 نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2۔ جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا اور نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

وعدہ خلافی کے اسباب و علاج: وعدہ خلافی کا سبب قلت خشیت ہے کہ جب اللہ کا خوف ہی نہ ہو تو بندہ کوئی بھی گناہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ فکر آخرت کا ذہن بنائے، اپنے آپ کو رب کی بے نیازی سے ڈرائے اپنی موت کو یاد کرے، یہ مدنی ذہن بنائے کہ کل بروز قیامت خدانخواستہ اس عذر یعنی بد عہدی کے سبب رب ناراض ہو گیا تو میرا کیا بنے گا؟

وعدہ خلافی کا دوسرا سبب حبِّ دنیا ہے کہ بندہ کسی نہ کسی دنیوی غرض سے بدعہدی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حب دنیا کی مذمت پر غور کرے کہ دنیا کی محبت کئی برائیوں کی جڑ ہے جو شخص حب دنیا جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے اس کے لیے دیگر کئی گناہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، یقینا سمجھدار وہی ہے جو جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا ہی دنیا میں مشغولیت رکھے فقط اپنی اخروی زندگی کی تیاری کرتا رہے۔

وعدہ خلافی کا تیسرا سبب دھوکا بھی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دھوکے جیسے قبیح فعل کی مذمت پر غور کرے کہ جو لوگ دھوکا دیتے ہیں ان کے بارے میں احادیث مبارکہ میں یہ وارد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں، یقینا دھوکا دینا کسی مسلمان کی شان نہیں، جب لوگوں پر اس کی دھوکا دہی کا پردہ چاک ہو جاتا ہے وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا، دھوکا دہی سے کام لینے والا بالآخر ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتا ہے، دھوکا دینے والا رب کی بارگاہ میں بھی ندامت و شرمندگی سے دوچار ہوگا۔

وعدہ خلافی کا چوتھا سبب جہالت ہے کہ جب بندہ غدر جیسی موذی بیماری کے وبال سے واقف نہ ہوگا تو اس سے بچے گا کیسے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ غدر کی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ بد عہدی کرنا مومنوں کی شان نہیں ہے۔ حضور ﷺ صحابہ کرام اور دیگر بزرگان دین نے کبھی کسی کے ساتھ بد عہدی نہیں کی، بد عہدی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے، بدعہدی کرنے والے شخص کے لیے کل بروز قیامت اس کی بد عہدی کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا، بد عہدی کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ کی بارگاہ میں یوں دعا کرے: اللہ مجھے بد عہدی جیسے موذی مرض سے نجات دے کہ میں کبھی بھی کسی مسلمان کے ساتھ بدعہدی نہ کروں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 173 تا 175)