معاہدہ کرنے
کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بدعہدی کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی
معلومات، ص 170) بے شک زبان وعدہ کرنے میں بہت زیادہ سبقت کرتی ہے پھر بعض اوقات
نفس اس کو پورا نہیں کرتا تو یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور یہ نفاق کی علامات میں
سے ہے۔ (احیاء العلوم، 3/487) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا
بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ
6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
احادیث
مبارکہ:
1۔جس طرح عطیہ
دے کر واپس لینا مناسب نہیں ہے اسی طرح وعدہ کر کے بھی اس کا خلاف نہیں کرنا
چاہیے۔ (احیاء العلوم، 3/403)
2۔ وعدہ قرض
کی مثل ہے بلکہ اس سے بھی سخت تر ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)
منقول ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کسی
شخص سے ایک جگہ کا وعدہ فرمایا تو وہ شخص وہاں نہیں آیا بلکہ بھول گیا تو آپ 22
دن تک اس جگہ پر اس کے انتظار میں ٹھہرے رہے۔(احیاء
العلوم، 3/403)
قرآن کریم
میں ایک اور جگہ وعدے کے متعلق ارشاد فرمایا گیا: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ
الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ(۵۵) اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ
مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا
یَتَّقُوْنَ(۵۶) (پ
10، الانفال: 55-56) ترجمہ کنز الایمان: بے شک سب جانوروں میں بدتر اللہ کے نزدیک
وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر
ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔
3۔ تین عادتیں
ایسی ہیں کہ جس شخص میں ہوں وہ منافق ہے اگرچہ روزہ رکھے نماز پڑھے اور یہ گمان
کرے کہ وہ مسلمان ہے: بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے، امانت
رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔ (احیاء العلوم، 3/489)حدیث مبارک میں وعدہ خلافی کا
مصداق وہ شخص ہے جس کا عزم یہ ہو کہ وہ وعدہ پورا نہیں کرے گا یا وہ جو بغیر کسی
عذر کے وعدہ پورا نہ کرے، رہا وہ شخص جس کا وعدہ پورا کرنے کا عزم ہو پھر اسے کوئی
ایسا عذر پیش آ جائے جو اسے وعدہ پورا کرنے سے روک دے تو وہ منافق نہیں ہوگا
اگرچہ یہ بھی صورتا نفاق ہے جس سے ایسے ہی بچنا چاہیے جیسے حقیقی نفاق سے بچا جاتا
ہے اور معقول عذر کے بغیر خود کو معذور نہیں سمجھنا چاہیے۔
وعدہ
خلافی کا حکم:
وعدہ خلافی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔