وعدہ خلافی کی مذمت از بنت بشیر احمد، جامعۃ المدینہ صابری
کالونی اوکاڑہ پنچاب
وہ بات جسے
پورا کرنا انسان خود پر لازم کرے وعدہ کہلاتی ہے، وعدے کے لیے لفظ وعدہ کہنا ضروری
نہیں بلکہ ویسے ہی الفاظ سے اپنی بات کا پختہ ہونا ظاہر کیا یہ بھی وعدہ ہے۔
وعدہ
خلافی کی تعریف:
وعدہ کرتے وقت ہی یہ نیت ہو جو میں کہہ رہا ہوں نہیں کروں گا یہ وعدہ خلافی
ہے۔(شیطان کے بعض ہتھیار، ص 42) مثلا وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا
کردوں گا لیکن دل میں ہے کہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ خلافی ہے، اگرچہ اس تاریخ کو
رقم ادا ہی کیوں نہ کر دے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا
بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ
6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔
وعدہ
خلافی کا حکم:
پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا حرام کام ہے۔(ظاہری
گناہوں کے بارے میں معلومات، ص 34)
وعدہ خلافی کی
مذمت پر درج ذیل احادیث پیش خدمت ہیں:
1۔ اس شخص کا
کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
2۔ وعدہ قرض کی
مثل ہے بلکہ اس سے بھی سخت ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)
3۔ وعدہ کرنا عطیہ ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 456) یعنی جس
طرح عطیہ دے کر واپس لینا مناسب نہیں اس طرح وعدہ کر کے بھی اس کا خلاف نہیں کرنا
چاہیے۔ (احیاء العلوم، 3/403) بے شک زبان وعدہ کرنے میں بہت سبقت کرتی ہے پھر نفس
اس کو پورا نہیں کرتا یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے۔
4۔ منافق کی 3
نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی
جائے خلاف کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
5۔ جب کوئی
شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے
وعدے پر نہ آ سکے تو اس پر گناہ نہیں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4995) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں
فرماتے ہیں: جائز وعدہ پورا کرنا عام علما کے نزدیک مستحب ہے، وعدہ خلافی مکروہ،
بعض علما کے نزدیک ایفائے عہد واجب ہے اور وعدہ خلافی حرام ہے، اگر وعدہ کرنے والا
پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو
وہ گنہگار نہیں، یوں ہی اگر کسی کی نیت وعدہ خلافی کی ہو مگر اتفاقا پورا کر دے تو
گنہگار ہے اس بدنیتی کی وجہ سے ہر وعدہ میں نیت کو بڑا دخل ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،
6/ 492)
حضرت ابراہیم
رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کسی سے مقررہ مدت پر آنے کا وعدہ کرے پھر
نہ آئے تو اس کا کتنی دیر انتظار کرنا چاہیے ارشاد فرمایا: وہ آئندہ نماز کا وقت
داخل ہونے تک انتظار کرے۔
22
دن تک انتظار: اللہ
پاک نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے سورۂ مریم میں ارشاد فرمایا:
اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ
الْوَعْدِ (مریم:
54) ترجمہ کنز العرفان: بے شک وہ وعدے کا سچا تھا۔ منقول ہے کہ حضرت اسماعیل نے
کسی شخص سے ایک جگہ آنے کا وعدہ فرمایا تو وہ نہیں آیا، آپ 22 دن تک اسی جگہ اس
کے انتظار میں کھڑے رہے۔ (احیاء العلوم، 3/403)
نبی کریم ﷺ کی وعدہ وفائی: حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعثت سے پہلے
میں نے نبی کریم ﷺ سے کوئی چیز خریدی تھی اس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی،
میں نے وعدہ کیا اسی جگہ لاکر دیتا ہوں، میں بھول گیا اور 3 دن کے بعد یاد آیا
میں گیا تو آپ اسی جگہ موجود تھے، ارشاد فرمایا: اے نوجوان تونے مجھے تکلیف دی
ہے، میں 3 دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4996)
فخر الدین
رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہو جاتا ہے
تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے احتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا
کرنے میں پوری کوشش کرے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، 6/108-109) وعدے کو معمولی مت
سمجھیے، وعدہ پورا کرنے سے بندے کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے، لوگ اس کی بات
پر اعتماد کرتے ہیں، وعدے کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتی ہے۔