وعدہ خلافی کی مذمت از بنت اصغر علی باجوہ، جامعۃ المدینہ یزمان ضلع
بہاولپور
ہمارے معاشرے
میں جو قباحتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی قباحت وعدہ خلافی یا کسی سے کیے
ہوئے معاہدے کو جانتے بوجھتے پورا نہ کرنا بھی ہے جو کہ وعدہ خلافی کرنا کہلاتا
ہے۔ ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے،
قرآن و سنت میں وعدے کے حوالے سے بہت سی خوبصورت باتیں بیان کی گئی ہیں، سورۂ
بنی اسرائیل کی آیت نمبر 34 میں ارشاد ہوا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ
مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) ترجمہ کنز
الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔ ایک مسلمان جب کلمہ طیبہ
پڑھ لیتا ہے تو وہ اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی
زندگی اللہ پاک کے احکامات کی روشنی میں سنت نبوی کی پیروی میں گزارے گا، قرآن
مجید میں وعدے کی پابندی پر بہت زور دیا گیا ہے، عہد پورا کرنا ایمان والوں کی اہم
صفت ہے اور وعدہ خلافی کو منافق کی نشانی قرار دیاگیا ہے اور جو شخص اپنے وعدوں کا
خیال نہیں رکھتا نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ دین سے محروم ہو جاتا ہے۔
فرامین
مصطفیٰ:
1۔ جو شخص
وعدے کی پابندی نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)
اللہ پاک نے
اہلِ ایمان کو عہد توڑنے سے منع فرمایا ہے، اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو
پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے۔
قرآن نے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو اپنے وعدے
کو پورا کرتے ہیں اور اپنے وعدے کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، خود اللہ کریم نے اپنی
اس صفت کا بار بار ذکر فرمایا ہے، ترجمہ: اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات کے ذریعے بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ
خلافی کی برائی بیان فرمائی ہے۔
2۔ جس میں 3
باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے: جو بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ
خلافی کرے، اگر اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)
نفاق کفر کی ایک قسم ہے اور وعدہ خلافی کو آپ نے
نفاق قرار دیا ہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس قدر مذموم ہے۔
3۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی: آپ قرض سے بہت زیادہ پناہ مانگتے ہیں؟ اس
پر آپ نے فرمایا: جب کوئی مقروض ہو تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلاف ہو جاتا
ہے۔(بخاری، 2/108، حدیث: 2397)
4۔ نبی اکرم ﷺ
نے فرمایا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے: 3 قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت کو میں
خود مدعی بنوں گا: ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پر عہد کیا اور پھر وعدہ خلافی
کی، دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص
جس نے کسی کو مزدور رکھا پھر کام تو اس سے پورا لیا لیکن اس کی مزدوری نہ
دی۔(بخاری)