وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کر لے وعدہ کہلاتا ہے۔ وعدہ
خلافی اور عہد شکنی حرام اور گناہ کبیرہ ہے، کیونکہ اپنے وعدے کو پورا کرنا مسلمان
پر شرعا واجب و لازم ہے، وعدے کا پورا کرنا ضروری ہے، مسلمان سے وعدہ کیا ہو یا
کافر سے، عزیز سے یا غیر سے، استاد شیخ یا نبی سے وعدہ پورا کرنا چاہیے، وعدہ پورا
کرنا عزت و وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و قرار کی خلاف ورزی بندے کو دوسرے
کی نظر میں گرا دیتی ہے۔
حضور ﷺ نے
حالتِ جنگ میں بھی وعدہ پورا فرمایا، چنانچہ غزوۂ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی
افرادی قوت کم اور کفار کا لشکر تین گنا سے بھی زیادہ تھا، حضرت حذیفہ اور حضرت
سہیل رضی اللہ عنہما دونوں صحابہ کہیں سے آ رہے تھے کہ راستے میں کفار نے دھر لیا
اور کہا: تم محمد ﷺ کے پاس جا رہے ہو؟ جب ان دونوں حضرات نے شریکِ جنگ نہ ہونے کا
عہد کیا تب کفار نے انہیں چھوڑا، آپ ﷺ نے سارا ماجرا سن کر دونوں کو الگ کر دیا
اور فرمایا: ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے ہمیں صرف اللہ کی مدد درکار ہے۔
قرآن مجید
اور احادیث مبارکہ میں وعدہ خلافی کی بہت مذمت کی گئی ہے، آئیے احادیث مبارکہ سے
وعدہ خلافی کے متعلق وعیدیں ملاحظہ کرتے ہیں:
1۔ جو مسلمان
عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسان کی لعنت ہے اور
اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)
2۔ چار باتیں
جس شخص میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو
وعدہ خلافی کرے، جب کوئی معاہدہ کرے تو عہد شکنی کرے اور جب جھگڑے تو گالی
بکے۔(بخاری، حدیث: 3178)
3۔ لوگ اس وقت
تک ہلاک نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے لوگوں سے عہد شکنی نہ کریں گے۔ (ابو داود،
4/166، حدیث: 4347)
4۔ جب اولین و
آخرین کو اللہ پاک جمع فرمائے گا تو ہر عہد توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا
جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (مسلم، ص 739، حدیث: 1735)
5۔ ہر عہد
شکنی کرنے والے کی سرین کے پاس قیامت میں اس کی عہد شکنی کا ایک جھنڈا ہوگا۔ (مسلم،
ص 740، حدیث: 1738)
6۔ جو قوم بد
عہدی کرتی ہے اللہ پاک ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کر دیتا ہے۔ (قرۃ العیون، ص
392)
اللہ پاک ہمیں
اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنے آقا ﷺ کی مبارک سنت
پر عمل کرتے ہوئے اپنے جائز وعدے پورے کرنے والے بن جائیں۔