وہ بات جسے کوئی شخص پورا کرنا خود پر لازم کرے وعدہ کہلاتا ہے۔ (معجم وسیط، 2/1007) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وعدہ کا پورا کرنا ضروری ہے، مسلمان سے وعدہ کرو یا کافر سے، عزیز سے وعدہ کرو یا غیر سے۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 6)

وعدہ خلافی: معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی کہلاتا ہے اسے ہی وعدہ خلافی کہتے ہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 170) وعدہ خلافی عملی جھوٹ میں شمار ہوتا ہے، اسلام نے بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا اور عہد شکنی کی مذمت کی ہے، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

ایک اور مقام پر فرمانِ باری ہے: ترجمہ کنز الایمان: بے شک سب جانوروں میں بد تر اللہ کے نزدیک وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور ایمان نہیں لاتے وہ جن سے تم نے معاہدہ کیا پھر ہر بار اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔

حکم: عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور بد عہدی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ حدیث مبارکہ میں بھی وعدہ خلافی کی مذمت بیان کی گئی ہے:

احادیث مبارکہ:

1۔ جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا نہ نفل۔(بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

2۔ منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی وعدہ خلافی بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔(بخاری، 1/24، حدیث: 33)لہٰذا ہمیں ہر صورت میں اپنے وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بشرطیکہ یہ وعدے کتاب و سنت کے خلاف نہ ہوں، رسول اللہ ﷺ بھی جب کسی سے وعدہ فرماتے تو اسے پورا فرماتے تھے اور خود اللہ پاک نے اپنی اس صفت کا بارہا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور قرآن کریم میں کامیاب مؤمنین کی فہرست میں اپنے وعدہ کا پاس و لحاظ رکھنے والوں کو بھی شمار کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) (پ 18، المؤمنون: 8) ترجمہ: اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ ایفائے وعدہ اہل ایمان کی شناخت ہے، مؤمنین صادقین اور اللہ کے مخلص بندوں کی امتیازی خصوصیات میں ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں، پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین لوگ وہ ہیں جو وعدہ پورا کرتے ہیں۔ (مسند ابی یعلی، 1/451، حدیث: 1047) احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ہر صورت میں اپنے وعدے پورے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اس حوالے سے کی جانے والی جد و جہد ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کا سبب بن سکتی ہے اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوتاہی کے نتیجے میں ہمیں دنیا و آخرت میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اللہ پاک اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے ہمیں وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین