دین اسلام کے ستارے جنہوں نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ پاک اور روزمرّہ کے معاملات کو اپنی آنکھوں میں بسایا تو ان عظیم ہستیوں کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول ، فعل اور تقریر(یعنی وہ کام جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روبرو ہوا ہو لیکن اسے منع نہ فرمایا ہو)کو سننے اور دیکھنے کے بعد ان سب معاملات کو نقل وروایت کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن بعد میں آنے والی امتِ مسلمہ کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و افعال سے آگاہ کرنے کے لیے نقل و روایت کا سلسلہ شروع کیا ۔ان عظیم ہستیوں نے نہایت دیانت داری، وفا داری،خلوص و محبت اور بے انتہا احتیاط کو ملحوضِ خاطر رکھتے ہوئے احادیثِ نبوی کو نقل و روایت کرتے ہوئے تابعین تک پہنچایا۔ تابعین کی مقدس جماعت نے پوری امانت داری کے ساتھ تبع تابعین کو یہ مقدّس ذخیرہ حوالے کیا اور یوں سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آج چودہ سو سال بعد بھی ہمیں احادیثِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم بھر پور حاصل ہے۔ یہ سب علمائے محدثین کی بے پناہ کوشش ،دیانتداری و لگن کا ثمرہ ہے جنہوں نے ضخیم ضخیم کتب میں انہیں محفوظ کر کے علمِ حدیث کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ صحابہ کرام سے لے کر آج تک جس کسی نے علم حدیث پر کام کیا ان کی مثال آپ ہے کہ ایک ایک حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے ملکوں کا سفر طے کیا کرتے تھے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیثِ پاک کے دوسرے راوی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ پاک سے مصر تک کا سفر طے کیا تاکہ وہ اس بات کو پختہ و مضبوط کر سکیں کہ اس حدیث کے دو راوی ہیں۔

(معرفة علوم الحدیث ،ص٨)۔

احادیثِ کریمہ کے اصول مزیّن کرنے میں جو اعلٰی پیمانے قائم کئے گئے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک مسئلہ درپیش ہوا اور اسکا حل قرآنِ مجید سے نہ ملا تو صحابہ کرام کی ایک جماعت سے دریافت کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیثِ پاک بیان کر کے مسئلہ حل کیا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان صحابہ میں ہے جن کی دیانت اور تقوٰی اور امانت و راستی کی قسم کھائی جاسکتی ہے ۔ اسکے باوجود حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حدیث مبارکہ کی تفتیش کے لیے پوچھا کہ اسکا کوئی اور راوی بھی ہے ؟ جب ایک اور صحابی رسول نے گواہی دی تو حکم جاری کیا (معرفة علوم الحدیث ، ص ١٤)۔

گویا یہ بات واضح کی کہ حدیثِ پاک کی تحقیق و تفتیش کے لیے ضروری ہے کہ اس سے بھی شریعت کے احکام بیان ہوتے ہیں ۔

احادیثِ مبارکہ کی خدمت کرنے میں ایک اہم عمل حدیث کو حفظ کرنا ہے اور کئی جیّد علمائے حدیث نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں احادیث کو حفظ کیا ۔ان میں نمایاں اسم حضرت ابو عبد اللّٰه محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ البخاری کا ہے جنہوں نے چھ لاکھ احادیثِ مبارکہ کو اپنے سینے میں محفوظ فرمایا اور جمع احادیث کا مجموعہ بنام الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول اللّٰه و سننہ وأیامہ تحریر فرما کر امتِ مسلمہ پر عظیم احسان کیا ۔ اسی طرح دیگرمحدّثین نے بھی لاکھوں احادیث حفظ کر کے قلم بند کیں اور فنِ حدیث میں بھی بے حساب خدمت سر انجام دی ۔ اللہ پاک ان سب کے صدقے میں ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم