کسی
بھی علم کی اہمیت کا اندازہ اس علم کے موضوع سے لگایا جاسکتا ہے، جس طرح قرآن
احکامِ شرع میں حُجّت ہے، اسی طرح حدیث بھی اور اس سے بہت سے احکام شریعت ثابت
ہوتے ہیں۔
( نصاب اصول
حدیث: صفحہ نمبر 12 )
جمع حدیث :
جمع
حدیث کا سلسلہ عہد رسالت صلی اللہ
علیہ وسلم سے لیکر تبع تابعین تک مسلسل جاری رہا، یہاں تک کہ سینہ
درسینہ ،سفینہ در سفینہ،نسل در نسل نقل و روایات کا یہ مقدس سلسلہ آگے بڑھتا رہا، تاکہ
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
کے اقوال و افعال ،احوال وکوائف اور ارشادات و تقریرات کا وہ مقدس ذخیرہ احادیث کی
ضخیم کتابوں میں محفوظ ہوکر ہم چودہ سو سال بعد میں پیدا ہونے والے افرادِ امت تک
پہنچایا۔ (انوار الحدیث: صفحہ نمبر 55 )
اکابر
علماء ملت اور اسانید شریعت نے علم حدیث کی تحصیل کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردی تھیں،
انہوں نے بارہا صرف ایک حدیث کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر کیا، طلبِ حدیث میں کوئی
چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی تھی، انہوں نے احادیث کو اپنے سینوں میں اور پھر
نوشتوں میں محفوظ کیا۔ تذکرہ محدثین: (صفحہ نمبر 23 )
امام
بخاری رحمۃ اللہ علیہ
اپنے پیش رواٰئمہ کی آرزو ،اساتذہ کا فخر
اور معاصرین کیلئے سراپا رشک تھے، جب آسمانِ علم حدیث پر امام بخاری کا سورج طلوع
ہوا، تو تمام محدثین ستاروں کی طرح چھپتے چلے گئے، صحیح مجرد میں سب سے پہلے انہوں
نے مجموعہ حدیث پیش کیا اور کتبِ صحاح کی تصنیف کا سلسلہ شروع ہوگیا۔( تذکرہ محدثین:
صفحہ نمبر 165 )
امام
بخاری نے روایت حدیث کے سلسلہ میں بار بار دوردراز شہروں کا سفر کیا اور برسہا برس
وطن سے دور بیٹھے اکتساب ِعلم کرتے رہے، انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ" میں
طلبِ حدیث کیلئے مصر اور شام دو مرتبہ گیا، چار مرتبہ بصرہ گیا، چھ سال حجازِ مقدس
میں رہا اور ان گنت مرتبہ محدثین کے ہمراہ کوفہ اور بغداد گیا۔( تذکرہ محدثین:
صفحہ نمبر 168 )
امام
بخاری اور مسلم کے بعد جو امام حدیث سب سے زیادہ مرتبہ اور مقام کے مالک ہیں، وہ
امام ابو داؤد سجستانی ہیں، انہوں نے سب سے پہلے کتاب السنن لکھ کر علم حدیث میں ایک
نئی راہ دکھلائی اور اسکے بعد متعدد آئمہ حدیث نے انکے چراغ سے چراغ جلانے شروع کر
دیئے اور فنِ حدیث میں کتب سنن کا ایک
قابل قدر ذخیرہ جمع ہوگیا۔( تذکرہ محدثین: صفحہ نمبر 271 )
علم
حدیث کی خاطر انہوں نے متعدد اسلامی شہروں کا سفر کیا، خاص طور پر مصر،شام،
حجاز،عراق اور خراسان وغیرہ میں کثرت کیساتھ قیام کرکے علم حدیث حاصل کیا۔
( تذکرہ محدثین: صفحہ نمبر 272 )
حضرت
سیدنا عبد القدوس بن محمد العَبْعَابی کہتے ہیں، کہ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے
ہوئے سنا :"میں نے حضرت سیدنا شعبہ رحمۃ
اللہ علیہ کو انکے انتقال کے 7 دن بعد خواب میں دیکھا، کہ وہ حضرت سیدنا
مِسعَر بن کدام رحمۃ اللہ علیہ
کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں اور ان دونوں پر نور کی قمیضیں ہیں ، میں نے پوچھا:
"اے ابو بسطام!اللہ
عزوجل نے آپکے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ "ارشاد فرمایا " اللہ عزوجل نے مجھے بخش دیا"میں
نے پوچھا:" کس سبب سے ؟
ارشاد
فرمایا:" روایتِ حدیث میں سچائی سے کام لینے، اسکی نشر و اشاعت اور اس معاملے
میں امانت کا حق ادا کرنے کے سبب۔(152 رحمت بھری حکایات، صفحہ نمبر 95 )
علمائے
کرام رحمھم اللہ اجمعین
نے جمع حدیث میں بہت مشقتیں اٹھائیں، اللہ تبارک وتعالی ہمیں اس علم کی قدر
نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم