ارشاد باری تعالیٰ ہے : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔ (سورة الاحزاب:۲۱)

1۔جمع حدیث میں صحابہ کا کردار :

مسلمانوں کے دین کا سرمایہ اور ان کی شریعت کی متاع کل حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نمونہ حیات ہے۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال و احوال اور آپ کے شب و روز کے معمولات ہی ان کے لے سرچشمہ ہدایت ہیں۔صحابہ کرام نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کتاب زندگی کے ایک ایک ورق کو حفظ کیا۔خلوت و جلوت ،سفر و حضر اور نجی حالات سے لے کرعام سیاسی معاملات تک حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کا کوئی واقعہ نہیں ہےمگر اس کو انہوں نے محفوظ کر لیا۔وہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث کا تذکرہ کرتے۔

2۔جمع حدیث میں تابعین کا کردار:

صحابہ کرام کے بعد تابعین اور ان کے بعد اتباع کرنے والوں نے حفظ کیا اور کتابت کے اس عمل کو جاری رکھا۔یہاں تک کے دوسری صدی ہجری کے بعد حدیث کی باقاعدہ تدوین شروع ہوئی ۔ اور ابواب و کتب کی ترتیب سے حدیث کی کتابیں مدون ہوئیں ۔یوں ہمارے پاس حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جامع سیرت اوردین کی مکمل تصویر پہچنے کا اہتمام ہوا۔

(تذکرہ المحدثین،صفحہ ۲۳)

4جمع حدیث میں اکابر علماء کا کردار:

اکابر علماء ملت اور اسانید نے علم حدیث کی تحصیل کے لئے اپنی زندگیاں واقف کر دی تھیں ۔ انھوں نے بار ہا صرف ایک حدیث کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر کیا۔طلب حدیث میں کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی تھی ۔وہ اپنے شاگردوں سے بھی احادیث روایت کر لیتے تھے ۔انہوں نے احادیث کو اپنے سینوں میں اور پھر نوشتوں میں محفوظ کیا،ناقلین حدیث کو پرکھنے کے لئے علم رجال ایجاد کیااور اس میدان میں حیرت انگز کارنامے انجام دیئے ۔(تذکرۃ ُ المحدثین صفحہ۲۳)

4۔فرمان مصطفی صلی الله عليه وسلم:

علم کی طلب جاری رکھو، اگرچہ چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔

اگرچہ اس حدیث کو محدثین نے انتہائی ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ سرے سے حدیث ہی نہیں ہے۔

بعض محدثین نے اس حدیث کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ یہاں چین سے مراد ملک چین نہیں ہے بلکہ اس سے مراد دوردراز کاخطہ ہے یعنی علم کے حصول کے لئے اگر تمہیں دور بھی جانا پڑے تو جاؤ۔ ( مسند امام اعظم ،سصفحہ 6)

ایک حدیث کی خاطر ایک ماہ کا سفر:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں مجھے پتا چلا کہ نبی اکرم کی ایک حدیث فلاں صحابی سے پتہ چل سکتی ہے میں نے ایک اونٹ خریدا اس پر زاد راہ رکھا اور ایک ماہ تک سفر کرنے کے بعد شام پہنچا وہاں حضرت عبداللہ بن انیس انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے پر آیا اور اندر پیغام بھجوایا کہ انہیں بتا دیا جائے جابر آپ کے دروازے پر موجود ہے انہوں نے دروازے پر آکر پوچھا جابر بن عبد الله ؟

میں نے جواب دیا جی ہاں۔ انہوں نے باہر آ کر مجھے گلے لگایا میں نے انہیں بتایا کہ مجھے یہ پتہ چلا ہے ایک حدیث آپ نے نبی اکرم سے سنی ہے( اس کے بعد خاصی طویل روایت ہے)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علم حدیث کے حصول کے لیے کس قدر محنت اور مشقت برداشت کرتے تھے آج ہمارے زمانے میں جب کہ علم حدیث اور سیرت کے بارے میں شائع شدہ کتابیں موجود ہیں ہمیں اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ ہم ان کا مطالعہ کرنے کی زحمت کرلیں۔ (مسند امام اعظم صفحہ 60)

روایت حدیث کی تعداد:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دور صحابہ کے تابعین میں صحابہ کی ضروریات کو دیکھ کر محفوظ کرنا شروع کیا۔ حضرت ابو ہریرہ(5374) احادیث مروی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عباس سے( 1660) احادیث مروی ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے( 2286) احادیث مروی ہیں.

ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے( 2210) احادیث مروی ہیں.

حضرت عبداللہ عصر سے (1630) احادیث مروی ہیں.

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے (1540) احادیث مروی ہیں۔

( تذکرۃ المحدثین، صفحہ نمبر 31تا 32)