تدوین حدیث کے لیے علماء کرام نے جانکاہ
مصائب برداشت کئے،فقروفاقہ کی زندگی بسر کی ، جانفشانیاں کیں، مصائب وآلام برداشت کئے لیکن اس انمول دولت کے
حصول کے لیے ہر موقع پر خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا۔
1۔ امام ابو حاتم رازی
کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں :
میرے والد فرماتے تھے،سب سے پہلی مرتبہ علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا، پیدل تین ہزار میل سے زائد
چلا، جب زیادہ مسافت ہوئی تو میں نے شمار کرنا چھوڑ دیا۔
(جامع
الاحادیث ص 294)
اللہ اللہ علماء کرام نے حدیث کی تدوین کے لیے اتنے اتنے طویل سفر پیدل فرمائے۔
2۔ امام محمود بن
اسماعیل بخاری:
امیر المومنین فی الحدیث کو طلب حدیث میں کن حالات سے گزرنا
پڑا، ایک واقعہ سنتے چلیں۔
انکے ساتھی عمر بن حفض بیان کرتے ہیں :بصرہ
میں ہم امام بخاری کے ساتھ حدیث کی سماعت میں شریک تھے، چند دنوں کے بعد محسوس ہوا
کہ بخاری کئی دنوں سے درس میں شریک نہیں
ہوئے تلاش کرتے ہوئے ان کی قیام گاہ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک اندھیری کوٹھری میں پڑے ہیں۔ اور ایسا لباس جسم پر نہیں کہ جسکو پہن کر باہر نکلیں۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جو
کچھ اثاثہ تھا ختم ہو گیا اب لباس تیار کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں۔ آخر ہم لوگوں نے مل کر رقم جمع کی خرید کر کپڑا لائے تب کہیں جا کر امام بخاری پڑنے کے لیے نکلے۔(جامع الاحادیث 205,206)
3۔ امام محمود
شیبانی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے
ہیں :
مجھے اپنے والد کی میراث میں سے تیسں ہزار درہم ملے تھے ان میں سے پندرہ ہزار
میں نے علم نحو،شعر وادب اور نعت وغیرہ کی
تعلیم وتحصیل میں خرچ کیا اور پندرہ ہزار حدیث وفقہ کی تکمیل پر۔(تذکرہ امیراہلسنت
شوق علم دین ص20)
4۔ حافظ الحدیث "حجاج بغدادی" علیہ الرحمہ حضرت شبابہ محدث کے یہاں علم
حدیث پڑھنے کے لیے جانے لگے تو ان کی کل پونچی اتنی ہی تھی کہ ان کو غریب ماں نے ایک سو "کلچے" پکا دئیے تھے جن کو وہ ایک
مٹحا کے گھڑے میں بھر کر اپنے ساتھ لے گئے روٹیاں تو ماں نے پکا دی تھیں۔ہو نہار طالب العلم نے سالن کا خود انتظام کر لیا اور سالن بھی اتنا کْثیرولطیف کہ سینکڑوں برس گزر
جانے کے باوجود کم نہیں ہوا اور ہمیشہ تازہ ہی رہا اور وہ کیا !
دریائے دجلہ کا پانی، روزانہ یہ ایک کلچہ،دریا
کے پانی میں تر کرکے کھالیتے اور شبانہ روز انتہائی محنت کے ساتھ سبق پڑھتے یہاں
تک کہ جب کلچے ختم ہو گئے تو مجبوراً
استاذ کی درس گاہ کو خیر باد کہنا پڑا۔(تذکرہ
اہلسنت شوق علم دین ص 19)
5۔ امام محمد بے حد عبادت گزار تھے:
تصنیف و تالیف اور مطالعہ کتب میں اکثر اوقات مشغول رہا کرتے تھے۔ رات کے تین حصے
کرتے ،ایک حصہ عبادت، ایک حصہ مطالعہ، ایک حصہ آرام۔ امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ ایک رات
میں امام محمد کے پاس ٹھرا میں ساری رات نفل پڑھتا رہا اور امام محمود چارپائی پر لیٹے رہے صبح امام محمد نے بغیر وضو کے نماز پڑھی میں نے پوچھا
حضرت آپ نے وضو نہیں کیا ؟فرمایا:
تم نے ساری رات اپنے نفس کے لیے عمل کیا
اور نوافل پڑھے میں نے تمام رات حضور کی امت کے لیے عمل کیا اور کتاب اللہ سے مسائل کا استنباط کرتا رہا اس رات میں نے ہزار سے زیادہ مسائل کا استخراج کیا۔(تذکرہ المحدثین ص143)
6۔ علم حدیث کے لیے امام مسلم نے متعدد
شہروں کا سفر اختیار کیا۔ نیشاپور کے اساتذہ سے اکتساب فیض کے بعد
وہ حجاز ،شام،عراق اور مصر گئے ان گنت بار بغداد کا سفر کیا ۔
7۔ امام ترمذی نے حصول علم کی خاطر خراسان ،عراق اور حجاز کے متعدد شہروں کا سفر کیا۔
8۔ امام نسائی نے دوردراز شہروں کا سفر کیا
احادیث کی طلب اور روایت کی خاطر متعدد سفر کئے جن میں حجاز،عراق، شام اور فراساں اور مصر قابل ذکر ہیں ۔
9۔ امام ابن ماجہ نے بھی متعدد شہروں کا سفر کیا جن میں خراساں،عراق، حجاز، مصر، مدینہ منورہ، کوفہ،بصرہ، بغداد،
طیران قابل ذکر ہیں(تذکرہ المحدثین )
حضرت
ابو ایوب انصاری نے مدینہ منورہ سے مصر کا سفر محض اس لیے اختیار کیا کہ حضرت عقبہ بن عامرسے ایک حدیث سنیں چنانچہ وہاں
پہنچے اور حضرت عقبہ بن عامر نے استقبال کیا تو فرمانے لگے ۔ میں ایک حدیث کے لیے آیا ہوں جس کو سننے میں اب تمہارے سوا کوئی باقی نہیں۔ حضرت عقبہ نے حدیث سنائی کہ "رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس
کسی نے مومن کی ایک برائی چھپائی قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ۔
حضرت
ابو ایوب انصاری یہ حدیث سنتے ہی اپنے اونٹ کی طرف بڑھے اور ایک
لمحہ ٹھرے بغیر مدینے واپس چلے گئے۔(تذکرہ امیراہلسنت شوق علم
دین ص 16)
حضرت غوث اعظم فرماتے ہیں " میں نے( رہ
خدا ) میں بڑی بڑی سختیاں اور مشقتیں برداشت کہیں اگر وہ کسی پہاڑ پر
گزرتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا۔(قلائدالجواہر
ص19)