قرآن وسنت شریعتِ اسلامیہ کی اساس وبنیاد ہیں،البتہ قرآن کو اولیت حاصل  ہے،لیکن علومِ قرآن بغیر سنت نبوی حاصل نہیں ہوسکتے۔ قران کو سمجھنا ہے تو ارشادات رسول اور سنن نبویہ کا سہارا لینا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام و علماء کرام( رضوان اللہ علیہم اجمعین ) نے جس طرح قرآن کریم کی حفاظت کے لئے شب و روز جدوجہد فرمائی ،اسی طرح حفاظت حدیث کے لئے سعی بلیغ فرمائی۔

بےشک اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کائنات عالم میں معلم کتاب وحکمت بنا کر معبوث فرمایا اور بےشمار مناصب علیاو مراتب قصوی سے عزت و کرامت بخشی ۔

*آپ علیہ الصلوۃ والسلام ہادی اعظم اور مبلغ کائنات ہیں، جیسا کہ فرمان الہی ہے :

یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۶۷)ترجمہ كنزالايمان:اے رسول پہنچادو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ایسا نہ ہو تو تم نے اس کا کوئی پیام نہ پہنچایااور اللہ تمہاری نگہبانی کرے گا لوگوں سے بے شک اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا۔(پ6،المائدہ:67)

حفاظت حدیث :

علم حدیث کو دلیلِ شرعی ہونے کی سند قرآن کریم سے ملی ہے ۔خداوندقدوس نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور مسلمان کو اس پر عمل پیرا ہونے کی بدولت سعادت دارین اور فلاح ونجات اخروی کا مثردہ سنایا۔

اہل اسلام کی اولین جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ فرمانِ واجب الاذعان براہ راست حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا تھالہٰذا شب وروز اپنے محسن اعظم اور ھادی برحق کے اشاروں کے منظر رہتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں اپنے لئے نمونۂ عمل تلاش کرتے، زیادہ وقت دربار رسالت کی حاضری میں گزارتے اور آپ کی سیرت و کردار کو اپنانا ہر فرض سے اہم سمجھتے تھے۔انکی نشت و برخاست، خلوت و جلوت، سفر وحضر،عبادت و معاملات اور موت و حیات کے مراحل سب سنت رسول کی روشنی ہی میں گزرتے اور انجام پاتے۔احادیث کی حفاظت کا انتظام اسی طرح انہوں نے روز اول ہی سے شروع کر دیا تھا۔ صحابہ کرام نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یہ تعلیم بھی پائی تھی کہ میری سنت اور اسوہ حسنہ میں اپنے لئے نمونہ عمل تلاش کرو۔

لہذا اس جماعت کےسربراہ حضرت ابو ہریرہر رضی اللہ عنہ ہیں جو ذخیرہ حدیث کے سب سے بڑے راوی شمار ہوتے ہیں۔لوگوں کو ان کی کثرت روایت پر کبھی تعجب ہوتا تو فرماتے:

تم لوگ کہتے ہو کہ ابو ہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہو کہ مہاجرین وانصار اتنی حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے، تو سنو !مہاجرین تو اپنی تجارت میں مصروف رہتے اور انصار کا مشغلہ کھیتی باڑی تھا،جبکہ میرا حال یہ تھا کہ میں صرف حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا، جب انصار و مہاجرین غائب رہتے تو میں اس وقت بھی موجودہوتا ، اصحاب صفہ میں ایک مسکین میں بھی تھا۔جب لوگ بھولتے تو میں احادیث یاد رکھتا تھا۔

صحابہ کرام نے حصول حدیث کے لئے مصائب برداشت کئے :

اس معیار پر جب ان کی زندگیاں دیکھی جاتی ہیں تو ہر مسلمان بےساختہ یہ کہنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ ان کی تبلیغ و ہدایت محض اللہ و رسول کی رضا کے لئے تھی ۔سنت رسول کی اشاعت اور اس کی تعلیم وتعلم میں انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، کسی کو حکم رسول سنانے میں نہ کوئی خوف محسوس ہوتا اور نہ کسی سے حدیث رسول سیکھنے میں کوئی عار محسوس کرتے تھے۔

فاروق اعظم نے اشاعت حدیث کے لئے صحابہ کرام کو مامور فرمایا :

دورہ حدیث کے علاوہ انفرادی طور پر بھی حدیثیں یاد کرنے کا بڑا اہتمام تھا۔حفاظت حدیث کا یہ شغل صرف عہد نبوی تک محدود نہیں رہا بلکہ عہد صحابہ میں حصول حدیث اور اشاعت حدیث کا شوق اپنے جو بن پر تھا۔

حضرت فاروق اعظم نے خلافت اسلامی کے گوشے گوشے میں حدیث پاک کی تعلیم کے لئے ایسے صحابہ کرام کو روانا فرمایا جن کی پختگی سیرت اور بلندی کردار کے علاوہ ان کی جلالت علمی تمام صحابہ کرام میں مسلم تھی ۔ اور پھر آپ مزید اس وقت تک کے امیر/گورنر کو سخت تاکیدی حکم لکھتےکہ یہ حضرات جو احادیث بیان کریں ان سے ہرگز تجاوز نہ کیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت تو امت پر قیامت تک فرض ہے اور اس میں ان کی ترقی، عزت اور ہیبت کا راز پنہا ں ہے۔اس لیے تو آپ نے ملک کے گوشے میں جلیل القدر صحابہ کرام کو بھیجا کہ وہ لوگوں کو ان کے رسول کی سنت کی تعلیم دیں اور حکام کو بار بار اتباع سنت کے لئے مکتوب روانہ فرمائے۔

صحابہ کرام نے اپنے عمل وکردار سے سنت رسول کی حفاظت فرمائی:

صحابہ کرام اس منزل پر آکر خاموش نہیں ہو گئے کہ ان کو محفوظ کر کے آرام کی نیند سو جاتے، ان کے لئے حدیث کے جملوں کی حفاظت محض تبرک کے لئے نہیں تھی جن کو یاد کر کے بطور تبرک قلوب و اذہان میں محفوظ کر لیا جاتا، بلکہ قرآنی تعلیمات کی طرح ان کو بھی وہ وحی الہی سمجھتے تھے جن پر عمل ان کا شعار دائمی تھا۔

بہر حال صحابہ کرام میں ذوق اتباع عام تھا، اور ان کا دستور عام یہ ہی تھاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے رہنمائی حاصل کرتے، وہ صرف خود اپنی ہی زندگیوں کو حضور کے اسوہ حسنہ کے سانچے میں ڈھالنے کے مشتاق نہ تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کو حضور ہی کو نمونہ عمل کے طور پر اپنانے کی تلقین بھی کرتے تھے ۔۔

کتابت حدیث کی اجازت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی:

تدوین حدیث کو کتابت حدیث کی صورت ہی میں تسلیم کر نے والے اس بات پر بھی مصر ہیں کہ دوسری اور تیسری صدی میں حدیث کی جمع و تدوین کا اہتمام ہوا ،اس سے پہلے محض زبانی حافظوں پر تکیہ تھا۔ جب اسلام لوگوں کے قلوب واذہان میں راسخ ہو گیا اور قرآن کریم کا کافی حصہ نازل ہوچکا اور اس چیز کا اب خطرہ ہی جاتا رہا کہ قرآن و حدیث میں کسی طرح کا اختلاط روبعمل آئے گا تو کتابت حدیث کی اجازت خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

علم کو تحریر کے ذریعے مقید کر لو۔

تدوین حدیث کے لئے محدثین نے جانکاہ مصائب برداشت کئے:

تابعین عظام نے بھی ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے حفظ و کتابت کا فریضہ انجام دیا۔دوسری طرف ایسی شخصیات کی بھی کمی نہ تھی جنہوں نے فقروفاقہ کی زندگی بسر کی، جانفشانیاں کیں ،مصائب وآلام برداشت کئے لیکن اس انمول دولت کے حصول کے لئے ہر موقع پر خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا۔۔

امام حاتم رازی:

آپ علل حدیث کے امام تھے ،امام بخاری، امام ابو داؤد ،امام نسائی اور امام ابن ماجہ کے شیوخ سے ہیں۔ آپ مدتوں سفر میں رہتے اور جب گھر آتے تو سفر شروع کر دیتے۔آپ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں: میرے والد فرماتے تھے: سب سے پہلی مرتبہ علم حدیث کے حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا۔پیدل تین ہزار میل چلا، جب زیادہ مسافت ہوئی تو میں نے شمار کرنا چھوڑ دیا ۔

امام ہیثم بن جمیل بغدادی:

آپ عظیم محدث ہیں، امام مالک کے شاگرد اور امام احمد بن حنبل کے شیخ ہیں، علم حدیث میں شب وروز سرگرداں رہے۔مالی پریشانیوں سے بھی دو چار ہوئے ۔

علم حدیث کی طلب میں ہیثم بن جمیل دو مرتبہ افلاس کا شکار ہو ئے۔سارا مال و متاع خرچ کر ڈالا۔

امام ربیعہ:

آپ بھی ایک عظیم محدث اور تابعی مدنی ہیں، حضرت انس بن مالک اور سائب بن یزید کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں ،امام مالک،امام شعبہ، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ کے اساتذہ میں سے ہیں، ربیعہ الرائے کے نام سے مشہور ہیں، جب سے ربیعہ کا وصال ہوا فقہ کی حلاوت جاتی رہی۔

اس علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہو گیا تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس سے بھی گزرنا پڑا کہ جہاں آبادی کی خس وخاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقّٰی یا کھجوروں کے ٹکڑے چن کر بھی کھاتے۔۔۔اللہ اللہ!

آئمہ اربعہ کی علمی خدمات :

امام اعظم:

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار لکھی جبکہ آپ کے تلامذہ میں امام ابو یوسف ،امام محمد، امام حسن بن زیاد وغیرہ کی شاندار حدیثی خدمات سے اہل علم واقف ہیں۔ان حضرات کی جدوجہد نے روز اول ہی اس سیلاب پر بند باندھ دیا تھا کہ موضوع احادیث شرعی امور میں دخیل نہ ہونے پائیں۔صحیح کو غلط بلکہ ضعیف تک سے جدا کر کے اس بات کی صراحت کر دی گئی تھی کہ جملہ احادیث نہ استدلال میں مساوی ہیں نہ عمل میں۔۔

امام مالک:

علم حدیث کی عظمت اور کمال احتیاط دونوں ہی آپ کو ملحوظ تھیں۔ موطا امام مالک اولاً نو ہزار احادیث پر مشتمل تھی لیکن آپ اس کو بار بار قرآن کریم پر پیش کرتے رہےاور اب تعداد چھ سو سے کچھ اوپر ہے پھر یہ کیوں متصور کہ اس میں جعلی حدیثیں ہوں۔

امام شافعی :

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے اصحاب تو علم روایت ہی کے خوگر رہے ،پوری زندگی نشر ِحدیث و فقہ میں گزری۔

امام احمد بن حنبل: ۔

آخر میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ جنکی علم حدیث میں رفعت مسلم چیز ہے۔کہتے ہیں کہ آپ ساڑھے سات لاکھ احادیث کے حافظ تھے،ان میں سے آپ کی مسند میں ستائیس ہزار ایک سو احادیث موجود ہیں۔ یہ آئمہ اربعہ کی حدیث میں منصف مزاجی اور ان کا محتاط رویہ ہے۔

ہم نے تدوین حدیث، جمع حدیث، حفاظت حدیث، اشاعت حدیث کو یہاں مختصر بیان کرنے کی کوشش کی ہےکہ اہل اسلام ہرگز دھوکے میں نہ آئیں اور اپنے اسلاف کی ان کوششوں کی قدر کرتے ہوئے اپنے دینی سرمایہ کو دل و جان سے زیادہ عزیز رکھیں۔اس علم کی حفاظت کیلئے ہمارے اسلاف نے پوری زندگی اطراف ِعالم کے خاک چھانی ہےتب کہیں جاکر ہمیں یہ مستند ذخیرہ فراہم ہوسکا ہے

رب العالمین قبول فرمائے۔

ٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!