قرآن مجید فرقان حمید شریعت مطہرہ کا بنیادی ماخذ ہے جس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے۔ سنن نبویہ اس
جامع کتاب کی تشریح ہیں جن کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ
علمائے اسلام نے جمع حدیث کیلئے بہت مصائب و آلام برداشت کیے۔
ذیل میں علمائے اسلام
کی جمع حدیث میں اٹھائی جانے والی مشقتوں کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی جاتی ہے جس سے بزرگان دین کی خدمت حدیث کا اندازہ لگانا
مشکل نہیں ہوگا۔
1: حبر الامۃ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما
فرماتے ہیں : جس (صحابی) کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ اِن کے پاس حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہے تو میں ان کے در دولت پر پہنچتا اور حدیث سن کر یاد
کرلیتا ۔بعض حضرات کے پاس پہنچتا اور معلوم ہوتا کہ وہ آرام کر رہے ہیں تو ان کی
چوکھٹ پر سر رکھ کر لیٹ جاتا، ہواؤں کے تھپیڑے چلتے، گرد و غبار اڑ کر میرے چہرے
اور کپڑوں پر لگ جاتا لیکن میں اسی طرح منتظر رہتا، یہاں تک کہ وہ خود باہر تشریف
لاتے تو اس وقت اپنا مُدّعا بیان کرتا۔(جامع الاحادیث ص 129 ملخصاً و ملتقطاً)
2:امام ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ طلبِ حدیث کیلئے مدتوں سفر میں
رہتے ۔ آپ کے صاحبزادے کا بیان ہے،میرے والد فرماتے تھے:سب سے پہلے علم حدیث کے
حصول میں نکلا تو چند سال سفر میں رہا،پیدل تین ہزار میل چلا۔مزید خود اپنے بارے
میں فرماتے ہیں:میں بحرین سے مصر پیدل گیا، پھر رملہ سے طرطوس کا سفر پیدل ہی کیا،
اس وقت میری عمر بیس (20) سال تھی۔ (تدوین حدیث صفحہ 116 ملخصا و ملتقطا )
3:امام ہیثم بن جمیل بغدادی رحمۃ اللہ علیہ عظیم محدث تھے۔ علم
حدیث کی طلب میں شب و روز سرگرداں رہے۔ مالی پریشانیوں سے بھی دوچار ہوئے۔لکھا ہے
: افلس الهیثم بن جمیل فی طلب الحدیث مرتین یعنی علم حدیث کی طلب میں ہیثم بن
جمیل دومرتبہ افلاس (تنگدستی) کے شکار ہوئے۔(یہاں تک کہ) سارا مال و متاع خرچ کر
ڈالا ۔( ایضا ًصفحہ 117)
4:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنے اُستاد امام ربیعہ رحمۃ اللہ
علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: علم حدیث کی تلاش و جستجو میں ان کا حال یہ ہوگیا
تھا کہ آخر میں گھر کی چھت کی کڑیاں تک بیچ ڈالیں اور اس حال سے بھی گزرنا پڑا کہ
مذبلہ( کچرا کنڈی) جہاں آبادی کی خس وخاشاک ڈالی جاتی ہے وہاں سے منقّی یا کھجوروں
کے ٹکڑے چن کر بھی کھاتے۔( ایضا ًصفحہ 118 )
5:بصرہ میں امام بُخاری حدیث کی سماعت میں شریک تھے۔ایک مرتبہ
آپ رحمۃ اللہ علیہ کئی دنوں تک درس میں شریک نہ ہوئے ۔ تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ آپ
ایک اندھیری کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور جسم پر ایسا لباس نہیں جیسے پہن کر باہر نکل
سکیں۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جو کچھ اثاثہ تھا ختم ہوگیا ہے ۔آخر چند ساتھی
طلباء نے مل کر رقم جمع کی اور کپڑا خرید لائے،تب کہیں جا کر امام بُخاری رحمۃ
اللہ علیہ پڑھنے کیلئے نکلے۔(ایضاً 118)
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم