اللہ پاک
قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قَدْ
جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:بے شک
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب ۔
(المائدہ : 15 )
بلاشبہ قرآن
پاک میں ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، لیکن اس مکمل ضابطہ حیات کو سمجھنے کے لیے بھی ایک
مکمل انسان کی ضرورت ہے، بے شک وہ مکمل ذات ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات
ہے ، مفسرین کہتے ہیں مذکورہ آیت میں نور سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور
روشن کتاب قرآن پاک ہے، سبحان اللہ!
قرآن پاک نور ہے اور حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم بھی نور، تو نورانی قرآن کو سمجھنے کے لئے بھی اس نو رانی
بشر کی ضرورت ہے۔
قرآن
پاک خود ا تباعِ رسول کا حکم دیتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے : وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا
نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں
وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، باز ر ہو۔( الحشر : 07 )
ربّ تعالی فرماتا ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ،ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک
تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔
( الاحزاب : 21 )
نیز قرآن پاک میں ا رکا نِ اسلام مثلاً نماز، روزہ،
زکوۃ، حج وغیرہ کا ذکر نہایت اجمال کے ساتھ ہے، جس کی مکمل تفسیر و ضاحت آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً اور فعلاً تعلیم
فرمائی ہے اور اِنہی اقوال و افعال کو حدیث کہتے ہیں۔
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب
ترین حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان
اتباع رسول کے لیے احادیث کریمہ کا بے حد
ادب فرماتے اور اسی کوشش میں رہتے کہ آقا صلی
اللہ علیہ وسلمکا کلام زیادہ سے زیادہ سن سکیں، وہ حضرات حدیث کے سماع
کے لیے دور دراز علاقوں اور شہروں کا سفر اختیار فرماتے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ کا انداز:
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہخاندانِ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کے ایک اہم فرد تھے، کاشانہ نبوت میں ان کی حقیقی خالہ
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا
رہتی تھیں، ان کوشب روز وہاں گزارنے کا موقع ملتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے
لیے "تفقہ فی الدین"
کی دعا بھی فرمائی، آپ خود فرماتے ہیں:" میں نے ایک انصاری صحابی سے کہا، کیا
ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
صحبت سے تو اب محروم ہو گئے، لیکن اکابر صحابہ کرام ابھی موجود ہیں، چلو ان سے ہی حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث
سنیں اور اکتساب علم کریں، وہ بولے:"اے ابنِ عباس! تم کیا سوچتے ہوکہ اکابر
صحابہ کرام کے ہوتے ہوئے لوگ آپ سے مسائل پوچھیں گے؟فرماتے ہیں:'میں نے ان کی نصیحت
پر کان نہ دھرا اور مسلسل کوشش جاری رکھی، جس کے بارے میں مجھے علم ہوتا کہ ان کے
پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
کوئی حدیث ہے، تو میں ان کے درِ دولت پر پہنچ جاتا اور حدیث سن کر یاد کر لیتا،
بعض حضرات کے پاس پہنچتا اور معلوم ہوتا کہ وہ آرام میں ہیں، تو میں ان کی چوکھٹ
پر سر رکھ کر لیٹ جاتا، ہواؤں کے تھپیڑے چلتے، گردو غبار اُڑ کر میرے چہرے اور کپڑوں پر اَٹ جاتا، لیکن میں اسی حال میں منتظر
رہتا، وہ خود باہر تشریف لاتے، تو اس وقت میں اپنا مدعا بیان کرتا، وہ حضرات مُجھ
سے فرماتے، آپ تو خاندانِ نبوت کے فرد ہیں، آپ نے یہاں آنے کی زحمت کیوں اٹھائی، ہمیں
ہی یاد فرما لیا ہوتا، ہم خود آپ کے پاس حاضر ہوتے، میں عرض کرتا:" کہ میں طالبِ
علم ہوں، لہذا میں ہی اس بات کا مستحق ہوں کہ آپ کی خدمت میں حاضری دوں۔(جامع الااحادیث،
ج1، ص 128)
پھر انہیں کی طرز پر ہمارے اسلاف رحھم اللہ بھی جمع حدیث میں سرگرم رہے، یہاں
تک کہ بہت سی صعوبتیں، مشقتیں اور آزمائشیں برداشت کیں۔
تمام رقم طلب حدیث میں خرچ کردی:
ایک
عظیم تاجر حضرت عبد اللہ
بن مبارک کے طلبِ حدیث و فقہ میں ذوقِ علمی کا یہ
واقعہ بڑا مشہور ہے کہ ایک مرتبہ والد ماجد نے آپ کو پچاس ہزار درہم تجارت کے لئے
دئیے، تو تمام رقم طلبِ حدیث میں خرچ کرکے واپس آئے، والد صاحب نے دراہم کے بارے میں
دریافت کیا تو آپ نے جس قدر حدیث کےدفتر لکھے تھے، سب ان کے سامنے پیش کردیئے اور
عرض کیا:" میں نے ایسی تجارت کی ہے، جس سے ہم دونوں کو جہان میں نفع حاصل
ہوگا، ان کے والد محترم بہت خوش ہوئے، اور تیس ہزار درہم مزید عنایت کر کے فرمایا:"
جائیے! علمِ حدیث و فقہ کے طالبین پر خرچ کر کے اپنی تجارت کا مل کر لیجئے۔(انوارِ
امام اعظم ، ص430)
جو کچھ اثاثہ تھا ختم ہوگیا:
امیر
المومنین فی الحدیث امام بخاری علیہ الرحمہ
کو طلبِ حدیث میں کن حالات سے گزرنا پڑا؟ ایک
واقعہ سنئے، ان کے ایک ساتھی عمر بن حفص بیان کرتے ہیں، بصرہ میں ہم امام بخاری کے
ساتھ حدیث کی سماعت میں شریک تھے، چند دنوں کے بعد محسوس ہوا کہ بخاری کئیں دن سے
درس میں شریک نہیں ہوئے، تلاش کرتے ہوئے ان کے قیام گاہ پر پہنچے تو دیکھا کہ اندھیری
کوٹھری میں پڑے ہیں اور ایسا لباس جسم پر نہیں جس کو پہن کر باہر نکلیں، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ جو کچھ اثاثہ تھا
سب ختم ہو گیا، اب لباس تیار کرنے کے لئے بھی کچھ نہیں، آخر ہم لوگوں نے مل کر رقم
جمع کی اور کپڑا خرید کر لائے، تب کہیں جاکر امام بخاری پڑھنے کے لئے نکلے ۔
( جامع الحدیث مرکز اہلسنت برکاتِ رضا، جلد اول، صفحہ
نمبر205)