(1)راستے کا حق دیتے رہو: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ راستوں پر بیٹھنے سے بچو،تو صحابہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم نے کہا کہ یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم راستوں میں بیٹھنے سے تو ہم لوگوں کو چارہ ہی نہیں ہے کیونکہ ان ہی جگہوں میں تو ہم لوگ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں ،تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اگر تم لوگ راستوں میں بیٹھنے سے باز نہیں رہ سکتے تو بیٹھو لیکن راستے کا حق دیتے رہو۔صحابہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم راستہ کا کیا حق ہے؟ تو ارشاد فرمایا : (1)نیچی نگاہ رکھنا، (2)کسی کو ایذا نہ دینا ،(3) لوگوں کے سلام کا جواب دینا ،(4)اچھی باتوں کا حکم دینا ،(5) بُری باتوں سے منع کرنا۔

شرح حدیث :

علامہ قَسْطَلانی نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا یہ حکم کہ’’تم لوگ راستو ں پر بیٹھنے سے بچو‘‘یہ حکم وُجوبی نہیں تھابلکہ اِسْتِحْبَابی تھاکیونکہ اگر یہ حکم وُجوبی ہوتا تو صحابہ اس کے جواب میں ہرگز ہرگز کبھی یہ نہ کہتے کہ ہمارے لیے تو راستوں پر بیٹھنے سے چارہ ہی نہیں ہے نہ حضور ﷺیہ فرماتے کہ اچھاتم لوگ بیٹھوتوراستوں کا حق دیتے رہو۔ (حاشیہ بخاری،ص۹۲۰،ج ۲)

مذکورہ بالا پانچوں باتوں کو حضور ﷺ نے راستہ کا حق قرار دیا ہے اور مومن پر ازروئے شریعت ہر حق والے کا حق ادا کرنالازم ہے لہٰذا جو لوگ راستوں پر بیٹھیں ان پر لازم ہے کہ ان پانچوں باتوں پر عمل کریں ۔ بلا ضرورت راستوں پر بیٹھنا اگرچہ راستہ کے حقوق ادا کرنے کی صورت میں حرام اور گناہ تو نہیں مگر چونکہ یہ کوئی اچھی خصلت بھی نہیں ہے لہٰذا حتی الوسع مسلمانوں کو اس سے پرہیز ہی کرنا چاہئے۔خصوصاً اس زمانے میں جبکہ بے پردگی بلکہ عریانی و برہنگی فیشن بن چکی ہے سڑکوں اور راستوں پر لوگوں کا بیٹھنا بہت سے مفاسد کا پیش خیمہ ہے لہٰذا اس سے خاص طور پر پرہیز کرنا چاہئے۔ (منتخب حدیثیں , حدیث نمبر:26 )

(2)راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا : حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسُوْلُ اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ہر وہ دن جس میں سورج طلوع ہو(یعنی روزانہ) انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ ہے،دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے، آدمی کو اس کی سواری پر سوار کرانے یا اس کا سامان رکھوانے پر مدد کرنا صدقہ ہے، اچھی گفتگو صدقہ ہے، نماز کی طرف اٹھنےوالا ہر قدم صدقہ ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا صدقہ ہے۔ (مسلم، كتاب الزکاة، باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع...الخ، ص۳۹۱، حدیث:۲۳۳۵۔ بخاری، کتاب الجھاد، باب فضل من حمل متاع صاحبہ فی السفر، ۲/ ۲۷۹، حدیث:۲۸۹۱، بتغیر قلیل)

شرح حدیث :

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ حدیث شریف کے جز ’’راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا بھی صدقہ ہے‘‘ کی شرح میں فرماتے ہیں: راستہ سے کانٹا، ہڈی، اینٹ، پتھر، گندگی غرض جس سے کسی مسلمان راہ گیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو اس کو ہٹا دینا بھی نیکی ہے جس پر صدقہ کا ثواب اور جوڑ کا شکریہ ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،3/97)

(3)ایمان کا ادنٰی شعبہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے : حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہےکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ایمان کےساٹھ یا ستر سے زائد شعبے ہیں۔ ا ن میں سے افضل لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہنا اورسب سے ادنیٰ درجہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے اورحَیا(بھی)ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

شرح حدیث :

حضرت سَیِّدُنَا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ُسے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:ایک آدمی کہیں جا رہا تھا ، راستے میں اسے ایک کانٹےدار شاخ ملی تو اس نے اس شاخ کو راستے سے ہٹا دیا، پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاسے اس کا اجر عطا فرمایا اوراس کی مغفرت فرما دی۔حضرت سَیِّدُنَا ابنِ رُسلان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں نے بعض مشائخ کرام ر َحِمَہُمُ اللہ السَّلَام سے سنا کہ جو راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹائے تو اسے چاہیے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ بھی پڑھ لے تاکہ ایمان کا ادنیٰ اور اعلیٰ شعبہ اورقول وفعل جمع ہوجائیں۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:5 , حدیث نمبر:683 )

(4)جنت میں داخل کر دیا گیا :حضرتِ سَیِّدُنا ابوہریرہ ر َضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مکہ مکرمہ، سردارِ مدینہ منورہ ﷺ نے ارشادفرمایا: بے شک!میں نےایک ایسے آدمی کوجنت میں سیرکرتے دیکھا جس نے اس درخت کو کاٹا تھا جو کہ راستے میں تھا اور مسلمانوں کی تکلیف کاباعث تھا ۔ اورایک روایت میں یوں ہے: ایک آدمی ایسے راستے سے گزراجس پر ایک خار دار شاخ تھی۔ وہ کہنے لگا:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم میں اسے مسلمانوں کے راستے سے ہٹا دوں گا تاکہ مسلمانوں کو تکلیف نہ دے۔پس (اسی وجہ سے) اسے جنت میں داخل کر دیا گیا۔ بخاری ومسلم کی ایک روایت میں یوں ہے: ایک آدمی کہیں جا رہا تھا ، راستے میں اسے ایک کانٹےدار شاخ ملی تو اس نے اس شاخ کو راستے سے ہٹا دیا، پس اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاسے اس کا اجر عطا فرمایا اوراس کی مغفرت فرما دی۔

شرح حدیث :

اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حسین بن محمد بن عبداللہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ درخت بیچ راستے میں تھاکنارے پر نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ اس شخص کو اچھی نیت کی وجہ سے ہی جنت میں داخل کر دیا گیا ہواور اس نے درخت کاٹا نہ ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ کاٹ دیا ہو ۔ اس درخت کو تکلیف دہ ہونے کی وجہ سے کاٹا گیا ۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد:2 ، حدیث نمبر:127)