مسجد کو آباد کرنا بڑا عظیم کام ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ‏: اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ(۱۸) ‏ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے۔(پ ‏‏10،التوبۃ:18)‏ اور ایسے لوگوں کو ہدایت یافتہ قرار دیا ‏۔

مسجد کی آباد کاری میں سب سے بڑا کردار امام مسجد کا ہے اور امامت ایسا عظیم منصب ہے کہ ‏ خود حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،صحابۂ کرام،اولیائے کرام ،علمائے کرام،بزگانِ دین نے امامت فرمائی ۔حدیث مبارکہ میں فرمایا: ثلاثةٌ على كُثبانٍ من المسك يوم القيامة ، و ذُكر أنّ منهم رجلا أم قومًا و هم به راضون ترجمہ : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روزِقیامت تین قسم کے آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس ‏نے قوم کی امامت کی اور وہ اس (امام )سے خوش تھے۔ (جامع الترمذی البروالصلۃ باب ماجاء فی فضل المملوک الصلح، حدیث :1986)

‏ اور خود حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امام کے لیے دعا فرمائی (الإمام ضامن ، والمؤذِّنُ مؤتَمنٌ، اللہمَّ أرشِدِ الأئمَّةَ واغفِر للمؤذِّنينَ) ‏رسولُ اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: امام ضامن ہے اور مؤذن امین ہے، اے اللہ! تو اماموں کو راہِ راست پر رکھ اور مؤذنوں کی ‏مغفرت فرما۔(مسند احمد بن حنبل، حدیث : 6996)‏

‏ اس سے امامِ مسجد کی اہمیت و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و توقیر کے بجائے ایک ملازم کی ‏حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسی کے پیشِ نظر امام کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہم ان پر عمل کرکے ‏بہتری لا سکیں ‏۔

‏(1) امام کی عزت کرنا:‏ عن ابن عمر : أكرموا حملة القراٰن ، فمن أكرمهم فقد أكرم اللّٰہ ‏ ترجمہ حاملین قراٰن (حفاظ و علمائے کرام) کا اکرام کرو، جس نے ان کا اکرام کیا، اس نے اللہ کا اکرام کیا۔(كنز العمال، 1/523 ،حديث:2343)‏

عن أبي أمامة : حامل القراٰن حامل راية الإسلام ، من أكرمه فقد أكرم الله ، ومن أهانه فعليه لعنة الله ترجمہ: حاملین قراٰن اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے ہیں، جس نے ان کی تعظیم کی، اس نے اللہ کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی،اس ‏پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔ (كنز العمال، 1/523،حديث:2344)‏

آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں ‏اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا سمجھے اور ادب و ‏احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے۔‏

‏ (2) امام کی ٹوہ میں پڑنا :‏ بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں ‏ہے قَالَ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانِ، وَلَا الْفَاحِشِ، وَلَا الْبَذِيءِ یعنی مسلمان لعن طعن کرنے والا ، ‏فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا۔ ‏ (ترمذی شریف: باب ما جاء فی اللعنۃ،حدیث : 1977)‏

‏(3) امام کی تنخواہ ‏: امام کی تنخواہ مقرر کرتے وقت امام کے منصب اور معاشرے میں موجود مہنگائی کا لحاظ کرتے ہوئے مقرر کرنی چاہیے جائزہ لیجیے کہ ‏ایک شخص 15/20 ہزار میں کیا کر سکے گا فیملی کے خرچے،دودھ،راشن،شادی بیاہ میں جانا ،عید کی شاپنگ،بیماری میں دوائیاں لینا ‏اور کئی ضروریات ہیں جنکو پورا کیے بغیر انسان بڑی مشکل سے زندگی گذارے گا کم از کم اتنی تنخواہ رکھیں جو آپ اپنی اولاد کے لیے ‏چاہتے ہیں ایک واقعہ ہے ایک شخص امام صاحب کے پاس آیا اور دعا کے لیے کہا کہ میرے بیٹے کے لیے دعا کریں کہ جاب اچھی لگے ‏امام صاحب نے کہا کیا یہ دعا کروں کہ اتنی تنخواہ والی جاب ملے جتنی میری تنخواہ ہے وہ کہنے لگے امام صاحب یہ کیسی دعا ہے۔ لہٰذا ‏ مساجد سے منسلک افراد کے مشاہرہ و تنخواہ مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک ملازم و نوکر کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے بلکہ ‏یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پوراکررہےہیں ،گرمی ،سردی،طوفان و آندھی اس ‏طرح موسم کی تبدیلی کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں ، لہذا ان امام و مؤذن و خادم کا معقول ‏وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ‏۔

‏(5،4)امام کو تحفہ ،تحائف دینا اور اچھے کاموں کی تعریف: تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور حدیث مبارکہ میں بھی تحفہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔

روایت ہے حضرت عائشہ سے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی کہ فرمایا: ہدیہ کا لین دین کرو ہدیہ عداوتوں کو مٹا دیتا ہے۔‏(مرآۃ المناجیح، 4، حدیث : 2327)‏

اسی طرح اگر امام صاحب کی قرأت یا بیان اچھا لگے یا کوئی خوبی نظر آئے تو اس کو انکے سامنے بیان کیا جائے اس سے بھی آپس میں ‏محبت بڑھے گی دوریاں ختم ہونگی۔

‏ (6) امام کی ذمہ داری کا احساس ہونا ‏۔ ‏ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ امام صاحب کا کام صرف نماز پڑھانا ہے پھر تو 24 گھنٹہ فارغ ہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ سخت ‏ڈیوٹی امام مسجد کی ہے کیونکہ امام صاحب کسی بھی جگہ کام سے جائیں تو ٹینشن یہی انکو رہتی ہے کہ واپس جاکر اسی مسجد میں نماز ‏پڑھانے جانا ہے یوں وہ دور دراز سفر کرنے سے پرہیز کرتا ہے اور بھی اپنے کئی پرسنل کام ایسے وقت میں کرتا ہے کہ واپس آکر اسی ‏مسجد میں نماز پڑھانے جانا ہے یہ بہت بڑی قربانی ہے ورنہ کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ امام صاحب کو صرف نماز ہی تو پڑھانی ‏ہے جو اس پر فرض ہے پھر تنخواہ کیوں لیتا ہے تو ایسے شخص کو یہی جواب دیا جائے کہ ٹھیک ہے نماز پڑھنا فرض ہے لیکن اسی مسجد ‏میں تو پڑھنا فرض نہیں پھر تو امام صاحب کسی بھی مسجد ،کہیں بھی پڑھ سکتا ہے پھر ایک ہی مسجد میں نماز پڑھانے کا پابند کیوں ؟

‏ (7) امام کی بات بری لگے تو درگذر کرنا اور مناسب حل نکالنا :‏ ‏ اگر امام صاحب کا کوئی رویہ نامناسب ہے تو یا کوئی غلطی ہوگئی تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپس میں گروپ بندی کرکے ہجوم بناکر امام ‏کی غیبتیں کی جائیں بلکہ الگ سے اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے امام صاحب کو غلطیوں کی نشاندھی کروائی جائے کیونکہ شور مچانے ‏سے ،غیبتیں کرنے سے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا بلکہ ہم کئی گناہوں میں ملوث ہوجائیں گے ‏۔

‏ (9،8) امام کی ضروریات کا خیال کرنا اور اچھی رہائش کا انتظام کرنا ۔ ‏ ‏ عام معاشرے میں ایک انسان کے لیے جو ضروری سہولیات ہوتی ہیں وہ سب اچھے انداز میں امام صاحب کو بھی سہولیات دی جائیں ‏عموماً مساجد کی تعمیرات و رنگ و روغن وغیرہ میں تو کثیر خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ بسا اوقات اس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن امام ‏صاحب کا ہجرہ خستہ حالت میں ہوتا ہے کہیں کہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کمرے میں مسجد کی دریاں،پنکھے، اسپیکر وغیرہ سامان ہوتا وہیں امام صاحب کی رہائش ہوتی ہے۔ یہ بھی بالکل نامناسب کام ہے اسی طرح عرف کے مطابق کھانا وغیرہ کا ‏اہتمام کرنا اور اگر امام صاحب بیمار ہو جائیں تو حسب حیثیت مالی تعاون کرنا اور تعزیت کے لیے انکے پاس جانا ۔

(10) امام کو مقرر کرنے میں خیال کرنا :‏ امام کو مقرر کرنے سے پہلے مستقبل کے اعتبار سے خوب سوچ کر پلاننگ کی جائے ، یہ مناسب نہیں کہ ابھی اگر مسجد زیرِ تعمیر ‏ہے یا مسجد کی آمدن کم ہے تو گزارہ کرنے کے لئے کسی غریب ،مالی اعتبار سے حاجت مند کو رکھ کر گزارہ کرلیا جائے اور جب مسجد ‏عالیشان تعمیر ہوجائے تو اس بےچارے کو نکال دیں ، اگر مسجد تعمیر ہونے کے بعد کسی بڑے عالمِ دین ہی کو لانا ہے تو شروع ہی سے ‏طے کرلیں اور ابتداءً رکھے جانے والے امام صاحب کو بتادیں کہ ہم مسجد کی تعمیر تک آپ کی خدمات حاصل کریں گے اس طرح ‏ایک مسلمان کی دل آزاری سے ہم بچ جائیں گے۔

‏ اللہ پاک ہمیں ائمہ کرام کی عزت و خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم