امام مسجد کا مقام مرتبہ بہت
زیادہ ہوتا ہے۔ امام مسجد اپنے علاقے کا وہ معزز شخص ہوتا ہے جس کی اقتدا میں ہر
بڑے سے بڑا عہدے والا بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا
ہے اور امام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
اپنا ضامن تسلیم کرتا ہے ۔ امامت کا منصب کوئی عام منصب نہیں یہ وہ خاص و اعلیٰ
منصب ہے جس پر انبیا علیہم السلام اور اصحابِ رسول و اہلِ بیتِ اطہار علیہم
الرضوان فائز رہے۔ اور شبِ معراج محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
تمام انبیا علیہم السّلام کے درمیان امامت کروائی ۔ اس منصب کا حق ادا کرنا بہت
ضروری ہے اور امام مسجد کو سنتوں کا ایسا عامل ہونا چاہیے کہ عوام امام کو دیکھ
کر سنتوں کے عامل بن جائیں ۔
امامِ مسجد کا کردار ، رہن
سہن ، بول چال اور عادات ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ اس سے متاثر ہو کر دینِ اسلام کی
طرف آئیں ۔ ہمارے معاشرے میں امام مسجد کو بہت عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ اور
امام مسجد کو علم فقہ پر اور خصوصاً نماز
روزہ زکوٰۃ وغیرہ کے مسائل بھرپور مہارت ہونی چاہیے کہ یہ روز مرہ کے معاملات میں
پیش آنے والے مسائل ہیں۔امام مسجد کے بہت حقوق ہیں اگر سب کو زینت قرطاس بنایا
جائے تو وقت کے قلیل ہونے کے سبب سب کو یکجا جمع کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے
چند حقوق کو تحریر کئے جا رہے ہیں:
(1) امام مسجد کو متقی و پرہیز گار ہونا چاہیے۔ تاکہ
امام صاحب کو دیکھ کر لوگوں کو خوف خدا یاد آئے ۔
(2) شریعت کا پابند ہونا چاہیے ۔ تاکہ لوگ امام مسجد
کو دیکھ کر شریعت پر عمل کرنا شروع کردیں۔
(3) امام مسجد کو اپنے منصب
کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی ایسی دکان پر جانا جہاں لوگ امام کو اس کے
منصب کی وجہ سے سامان فری مل جائے تو یہ غلط فعل ہے۔
(4) عوام کو چاہیے کے امام
صاحبان کی انفرادی طور پر لازمی مدد کریں۔ کیوں کہ عموماً امام صاحبان کی تنخواہیں
بہت کم ہوتی جس سے انکا گزر بسر بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اہلِ علاقہ پر لازم ہے
کہ وہ امام صاحبان کی انفرادی طور پر لازمی مدد کریں۔
(5) امام صاحب پر طعن و تشنیع
نہیں کرنی چاہیے ، اگر کبھی نماز میں تاخیر ہو جائے تو امام صاحب کی ذلت کرنے کے
بجائے اس کے عذر کو سنا جائے۔ اور بلاوجہ امام صاحب کے خلاف باتیں کرنے سے بچا
جائے کہ یہ اخلاقی طور اور شرعی طور دونوں طرح سے درست نہیں ۔
(6) امام صاحب اصلاح معاشرہ
اور اصلاح امت کے لیے مسجد میں شارٹ کورسز کا سلسلہ جاری رکھے۔
(7) امام مسجد کی قراءت کا
خوبصورت ہونا چاہیے ۔ اگر امام مسجد عالم دین اور حافظ قراٰن ہو تو زیادہ حسن پیدا
ہو جائے گا۔
(8) نمازیوں کو بلاوجہ امام
مسجد کی تنقید نہیں کرنی چاہیے۔
(9) امام مسجد معاشرے کا عظیم
شخص ہوتا ہے اسلیے اس کو ایسے کاموں سے بچنا چاہیے جو اس کی تذلیل کا باعث بنیں ،
اور ایسی جگہ جانے سے بھی بچیں جو محل تہمت ہو۔
(10) امام مسجد اپنے اہل
علاقہ کے عقائد کو درست کرے اور علاقے کی ابھرتی نسل کے عقائد درست کرے تاکہ وہ دین
اسلام کی خدمت کر سکیں۔
امام صاحب کے ساتھ تعاون کرنے
کی وجہ یہی ہے کہ ہم امام صاحب سے یہ نہ پوچھیں کہ "حالات
کیسے ہیں ، کسی چیز کی حاجت" ، امام
صاحب کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے فلاں فلاں شے کی حاجت ہے بالکل وہ سکوت اختیار
کرکے نفی کا اشارہ کریں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بغیر پوچھے امام صاحب کی خدمت میں
رقم راشن پیش کردیں ، ایسا کرنے کے بعد اس کو جتایا نہ جائے بلکہ ہونا تو یوں چاہیے
کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں کو معلوم نہ ہو۔ تبھی آپ کو دیے ہوئے مال راشن کا
فائدہ ہوگا۔
امام صاحبان کی تنخواہوں میں
بغیر امام صاحب کے کہے ہی اضافہ کرنا چاہیے۔ اتنی تنخواہ ضرور ہونی چاہیے کہ وہ
اپنا پورا ماہ سکون سے گزار سکیں۔
کاش ہم منصبِ امامت کی اہمیت
کو جان لیں اور فضیلت امام کو پہنچان لیں تو یقیناً ہمارا معاشرہ بہترین معاشرہ بن
جائے گا۔
یہ منبر و محراب کے وارث سنتِ
رسول کو عام کرنے میں کوشاں ہوتے ہیں ہمیں ان مبارک لوگوں کا ساتھ دے کر دینِ
اسلام کی خدمت میں حصہ ملانا چاہیے۔ یہی ہمارے
لیے ذریعۂ نجات بن سکتا ہے۔
رب العالمین ہمیں امام الانبیا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے برکتیں عطا فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین ۔