مسجد کے امام کو امامتِ صغریٰ  کا درجہ حاصل ہے اور اس امامت (یعنی مسجد کے امام ) کا مطلب یہ ہے کہ ”دوسرے کی نماز کا اس کے ساتھ وابستہ ہونا“ (بہارِ شریعت ج۱ ص 560 ) بے شک امامت ایک بڑی سعادت ہے کہ خود مدنی سرکار ہم بے کسوں کے مددگار، حضورِ اکرم سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس امامت کو سر انجام دیا ۔ اس کی چھ شرائط ہیں :اسلام ،بلوغ ،عاقل ہونا ،مرد ہونا ، قرائت،معذورِ (شرعی) نہ ہونا (بہارِ شریعت ج۱،ص561 ) اگر کسی مسجد میں امام معین (مقرر)ہے تو امامِ معین امامت کا حق دا رہے اگرچہ حاضرین میں کوئی اس سے زیادہ علم والا اور زیادہ تجوید والا ہو(بہارِشریعت ج۱،ص567) جہاں امامِ معین (مسجد کے امام )کے اتنے مسائل اور اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی ہیں جو کہ مقتدیوں پر لازم ہیں ۔آئیے ! اِن میں سے دس (10)حقوق کو ہم سنتے ہیں :

پہلا حق : امام کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کو امام تسلیم کیا جائے اگر کسی میں امامت کی جامع شرائط پائی جا رہی ہیں اور مسجد انتظامیہ متفقہ فیصلے سے اس کو امام منتخب کرچکی ہے تو اس کو امام تسلیم کر لینا چاہیے خواہ مخواہ اس کی ذات پر کیچڑ نہ اُچھالا جائے جب تک شریعت اس کی اجازت نہ دے۔

دوسرا حق : امام کا دوسر احق یہ ہے کہ امام کی غیبت،چغلی وغیرہ سے بچا جائے کیونکہ غیبت کرنا ویسے ہی بُرا کام ہے کہ غیبت کرنے والا گویا اپنے مردار بھائی گوشت کھاتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اپنے پیش امام کی غیبت کرنا کس قدر بُرا ہوگا لہذا اپنے مسجد کے امام کی غیبت وغیرہ کرنے سے بچنا چاہیے۔

تیسرا حق :امام کا حق ہے کہ اس کی عزّت کی جائے اور ہونی بھی چاہئے کیونکہ ہماری نمازیں اس امام کے ساتھ وابستہ ہیں جب تک امام نماز شروع نہ کرے ہم نماز شروع نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پیش امام کی عزّت کریں اور طعنہ زنی کا نشانہ نہ بنیں ۔

چوتھا حق: جہاں امام کا یہ حق ہے کہ اس کی عزت کی جائے وہیں امام کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی عزت افزائی اور حوصلہ افزائی بھی کی جائے امام کو پریشان دیکھ کر اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی جائے اور ہمت بڑھائی جائے حوصلہ دیا جائے۔

پانچواں حق: مسجد کمیٹی پر یہ لازم ہے کہ امام کی معقول تنحواہ مقرر کی جائے اور اس کی ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے ۔جس طرح ہمارے دیگر طبقے کے ملازمین کی تنخوائیں( Salary) ہوتی ہیں اسی طرح مسجد کے امام کی بھی معقول تنخواہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ امام مسجد کا حق ہے ۔

چھٹا حق : مقتدیوں کو چاہئے کہ جہاں امام مسجد کی تنخواہ مقرر ہوتی ہے اسی کے ساتھ اس کی ذاتی طور پر بھی مالی خدمت (خیر خواہی ) کرتے رہنا چاہئے۔ امیرِ اہلِسنت دامت برکاتہم العالیہ (اپنے تصنیف کردہ) نیک اعمال نامی رسالے میں فرماتے ہیں :کیا آپ نے اس ماہ مسجد کے امام کو 112 روپے یا کم از کم 12 روپے بطورِ نزرانہ پیش کیے؟

ساتواں حق: امام مسجد کا حق ہے کہ اہلِ محلّہ اس کو اپنی خو شی غمی کے معاملات میں یاد رکھیں ہمارے ہاں غمی کے مواقع پر تو امام صاحب کو فاتحہ وغیرہ کے لئے بلایا جاتا ہے لیکن خوشی( مثلاً شادی بیاہ ) کے مواقع میں امام کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

آٹھواں حق : جس طرح کئی یا تقریباً تمام ہی نوکری کرنے والے افراد کے لئے ہفتے میں ایک دن چھٹی مقرر ہوتی ہے اسی طرح مسجد کا امام جب چھٹی پر جائے تو ا س کا یہ حق ہے کہ اسکی غیر موجودگی میں مسجد کمیٹی خوش الحان قاری صاحب کو بطورِ نائب مقرر کرے ۔

نواں حق : امام صاحب اگر کسی نماز میں لیٹ ہوجائیں تو اس کا یہ حق ہے کہ اس کو سُست ،کاہل ،کام چور وغیرہ کہہ کر اس کی دل آزاری نہ کی جائے کہیں یہ دل آزاری کرنے والے کو آخرت میں رسواء نہ کر دے ۔

دسواں حق: جن مساجد میں امام صاحب اپنی فیملی کو ساتھ رہائش پزیر ہیں اُس علاقے کے اہلِ محلہ کو چاہئے کہ وہ امام صاحب کے اہلِ خانہ کا بطورِ خاص خیال رکھیں ، ان کو احساسِ محرومی کا شکار نہ ہونے دیا جائے ۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں امام مسجد کے جملہ حقوق جاننے اور ان کو اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہِ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم