وقار حسین عطاری (درجہ خامسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)
اسلام میں
کلام اللہ کے بعد کلام رسول اللہ کا درجہ ہے یعنی احادیث مبارکہ کا اور کیوں نہ ہو
کہ اللہ کے بعد رسول کا مرتبہ ہے ۔حدیث مبارکہ میں ہمارے لیے زندگی کے مختلف
معاملات میں رہنمائی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پیارے انداز میں مسلمانوں
کی تربیت فرمائی ہے۔ کبھی وعظ کے ذریعے کبھی اشاروں سے کبھی مثالوں سے تربیت فرمائی
ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مثالوں کے ذریعے تربیت فرمانے کے متعلق چند احادیث درج ذیل ہیں:
(1) حضرت سیدنا
نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ عزوجل کی حدود کو قائم رکھنے والوں اور ان میں مبتلا
ہونے (یعنی توڑنے والوں)کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے جہاز میں قرعہ اندازی کی
بعض کے حصے میں نیچے والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں اوپر والا ، نیچے والوں کو
پانی کی ضرورت کے لیے اوپر والوں کے پاس جانا پڑتا وہ ان کی وجہ سے زحمت میں پڑ
جاتے پس نچلے حصے والوں میں سے ایک شخص نے کلہاڑی لی اور اپنے حصے میں سوراخ کرنے
لگا (تاکہ پانی تک رسائی ہو) ایسی صورت میں اگر اوپر والے اس (سوراخ کرنے والے)
کو(سوراخ کرنے سے) نہ روکیں (اور یہ خیال کریں کہ وہ جانے اور ان کا کام ہمیں ان
سے کیا واسطہ) تو اس صورت میں سوراخ کرنے والا خود بھی غرق یعنی ہلاک ہو جائے گا
اور دونوں فریق بھی اور اگر وہ ان کا ہاتھ روک دیں گے تو دونوں فریق ڈوبنے سے بچ
جائیں گے اور وہ خود بھی۔(صحیح بخاری ، حدیث:2493،ج2، ص1343)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں اس حدیث پاک میں ایک مثال کے ذریعے برائی سے
روکنے اور نیکی کا حکم دینے کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے یعنی اگر دیکھا جائے تو
اس حدیث پاک میں مثال کے ذریعے مسلمانوں کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع
کرنے کی اہمیت پر تربیت فرمائی گئی ہے۔
(2)حضرت ابو
موسی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ہدایت
اور علم کی مثال جو رب نے مجھ کو دے کر بھیجا ہے اس بہت سی بارش کی طرح ہے جو کسی
زمین پر پہنچی اس کا کچھ اچھا تھا جس نے پانی کو چوس لیا اور گھاس اور بہت چارہ اگایا
اور بعض حصہ سخت تھا جس نے پانی جمع کر لیا جس سے اللہ تعالی نے لوگوں کو نفع دیا
کہ انہوں نے خود بھی پلایا اور کھیتی کی اور ایک دوسرے حصے میں پہنچا جو چٹیل تھا
کہ نہ پانی جمع کرے اور نہ گھاس اگائے یہ اس کی مثال ہے جو دینی عالم ہو اور اسے
اس چیز نے نفع دیا جو مجھے رب نے دے کر بھیجا اس نے سیکھا اور سکھایا اور اس کی
مثال ہے جس نے اس پر سر نہ اٹھایا اور اللہ کی وہ ہدایت قبول نہ کی جو مجھے دے کر
بھیجا گیا۔ (مراة المناجيح شرح مشكاة المصابیح جلد1،حدیث نمبر 150،ص350)
اس حدیث پاک میں بھی مثال کے ذریعے سمجھایا گیا
ہے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہری اور باطنی فیض اور نورانی کلام بارش ہے
اور انسانوں کے دل مختلف اقسام کی زمین چنانچہ مومن کا دل قابل کاشت زمین ہے جہاں
عمل اور تقوی کے پودے اگتے ہیں اور علماء مشائخ کے سینے تالاب ہیں جن سے قیامت تک
مسلمانوں کے ایمان کی کھیتیاں سیراب ہوتی رہیں گی اور منافقین اور کفار کے سینے
کھاری زمین ہے کہ نا فائدہ اٹھائیں نہ پہنچائیں۔(مراة المناجيح شرح مشكاة المصابیح
جلد1،حدیث نمبر 150،ص350)
(3)حضرت سَیِّدُنَا
مُسْتَوْرِدْ بن شَدَّادرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسول اکرم
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : ” آخرت کے مقابلے میں
دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر دیکھے کہ
وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے ۔ “(فیضان ریاض الصالحین جلد:4
، حدیث نمبر:463)
(4)روایت ہے
حضرت کعب ابن مالک سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ مؤمن کی مثال کچی کھیتی کی سی
ہے جسے ہوائیں جھلاتی ہیں کبھی گرادیتی ہیں کبھی سیدھاکرتی ہیں یہاں تک کہ اس کی
موت آجاتی ہے اورمنافق کی مثال مضبوط صنوبر کی سی ہے جسےکوئی آفت نہیں پہنچتی حتی
کہ یکبارگی اس کا اکھڑنا ہوتاہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 ، حدیث نمبر:1541)
یعنی مسلمان کی
زندگی بیماریوں،مصائب وتکالیف میں گھری ہوتی ہے جن پر وہ صبرکرکے گناہوں سے پاک و
صاف ہوتا رہتا ہے،منافق و کافر کی زندگی آرام و آسائش سےگزرتی ہے جس سے اس کی
غفلتیں بڑھ جاتی ہیں پھر یکبارگی ہی موت آتی ہے یعنی مسلمان کی زندگی کو کچی کھیتی
کی مثال کے ساتھ اور کفار کی زندگی کو صنوبر کے سخت تنے والے درخت کے ساتھ سمجھا دیا
گیا ۔
یہ چند احادیث
پیش کی گئی ہیں جن میں مثالوں کے ساتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت فرمائی
ہے ۔ اللہ پاک ہمیں احادیث کو پڑھنے انہیں سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
Dawateislami