دعا اللہ رب العزت سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے،اس کے فضل و انعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان  و مجرب ذریعہ ہے۔اسی طرح دعا مصطفی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ اور اللہ پاک کے نیک بندوں کی عادتِ متواترہ ہے۔ درحقیقت دعا عبادت بلکہ مغزِ عبادت اور گنہگار بندوں کے حق میں اللہ رب العزت کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت و سعادت ہے۔دعا کے بارے میں قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:(اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ) میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھےپکارے ۔ (پارہ 2، البقرۃ 186)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا کے بارے میں ارشاد فرمایا : دعا مسلمانوں کا ہتھیار،دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔(المستدرک کتاب الدعا والتکبیر، حدیث1855، ج 2، ص 162)اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ تر نہیں۔(سنن ترمذی کتاب الدعوات حدیث 3381، جلد 5 ص 243) اس آیتِ قرآنی اور حدیث ِ مبارکہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ دعا کرنا بندے کے لیے دنیا و آخرت میں بہت مفید beneficial ہے۔ بندے کوچاہیے کہ دعا کرنے سے غافل نہ رہے بلکہ عاجزی اور انکساری سے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کرتا رہے۔ کئی مقامات (places)ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہےان مقامات میں سے چند کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے:(1) مطاف:جہاں طواف ہوتاہے2)زیرِ میزاب: یہ سونے کا پرنالہ ہے جو کعبہ مشرفہ کی شمالی دیوار پر چھت پر نصب ہے۔(3)حطیم: کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل کے اندر کا حصہ حطیم کعبہ شریف کا ہی حصہ ہے اور اس میں داخل ہونا عینِ کعبہ میں داخل ہونا ہے (4) حجرِ اسود :یہ جنتی پتھر ہے جو کعبہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ اسود میں نصب ہے۔مسلمان اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں ۔(5)کوہِ صفا (6) کوہ ِمروہ: یہ دو پہاڑوں کے نام ہیں جو خانہ کعبہ سے فاصلے پر واقع ہے ۔ (7) عرفات (8)منی (9) مسجدِ نبوی (10) اولیاء و علماء کی مجالس:حدیثِ قدسی میں ہے: یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا ۔(11)منبر ِاطہر کے پاس(12) مسجد قباء شریف میں(13)احد پہاڑ پر(14)حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تمام مشاہدہ متبرکہ یعنی وہ مقامات جہاں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ میں تشریف لے گئے جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا باغ (15) مزاراتِ بقیع و احد اور مزارات ِاولیاء ۔یہ وہ مقامات ہیں جہاں دعا کے قبول ہونے کی زیادہ امید ہے۔ بندۂ مومن جب ان مقاماتِ مقدسہ پر خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگیں اور ہرگز ان کی قیمتی لمحوں کو ضائع نہ کریں ۔اللہ پاک ہمیں خشوع و خضوع سے دعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے ۔دعا عرض وحاجت ہے اور اجابت یعنی قبولیت یہ ہے کہ پروردگار اپنے بندے کی دعا پر لبیک عبدی فرماتا ہے ۔دلی مراد عطا فرمانا دوسری چیز ہے دعا کی قبولیت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ آدابِ دعا کو ملحوظ ِخاطر رکھا جائے۔ دعا کی قبولیت میں جلدی نہ کی جائے ۔ایک جگہ قرآنِ پاک میں رب کریم فرماتا ہے:ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ یعنی مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔سبحان اللہ!اس آیت ِکریمہ میں اللہ پاک نے اجابت کا وعدہ فرمایا ہے۔دعا کی اہمیت کے متعلق فرمانِ مصطفی ہے:دعا عبادت کا مغز ہے۔(ترمذی کتاب الدعوات الحدیث 3382)دعا کے قبول ہونے کی چند شرائط یہ ہیں:(1)دعا مانگنے میں اخلاص ہو ۔(2)دعا مانگنے والا اللہ پاک کی رحمت پر یقین رکھتا ہوں ۔(3)جو دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو شرعی طور پر منع ہو ۔ (تفسیر صراط الجنان پارہ 24 سورۃ مومن)دعا کے آداب کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے :(1) ہتھیلیاں پھیلا کر رکھے ۔(2)دعا کے اول و آخر حمدِباری بجالائے ۔(3)دعا کے اول آخر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اور ان کی آل پر درود ِپاک بھیجے۔آئیے ! اب دعا کی قبولیت کے مقامات پڑھئے:قبولیت ِدعا کے پندرہ مقامات:(1) مطاف:جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے ۔ (2)ملتزم: رکنِ اسود اور بابِ کعبہ کی درمیانی دیوار۔(3)مستجار :رکن ِیمانی اور شامی کے بیچ میں مغربی دیوار کاوہ حصہ جو ملتزم کے مقابل یعنی عین پیچھے کی سیدھ میں واقع ہے۔(4)مقامِ صفا :کعبہ کے جنوب میں واقع ہے ۔(5)مقام ِمروہ :کوہِ صفا کے سامنے واقع ہے۔(6)زم زم کے کنویں کے قریب: مکہ معظمہ کا مقدس کنواں (7)منیٰ: مسجدِ حرام سے 5کلو میٹر کے فاصلے پر وادی کا نام۔(8)مسجدِ نبوی شریف۔(9)جب جب کعبہ شریف پر نظر پڑے۔(10)مواجھہ شریف: امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں قبول ہوگی۔(حصن حصین ص:31) (11)مسجدِ قباء شریف۔(12)مزاراتِ بقیع۔(13)جبل ِاحدشریف ۔ (14)حطیم:کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرہ half circle کی شکل میں فصیل کے اندر کا حصہ (15)حجرِ اسود:جنتی پتھر ۔ان مقامات پر دعا قبول ہوتی ہے۔ اللہ پاک ان مقامات ِمقدس پر حاضری کا شرف نصیب فرمائے۔آمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔قبولیت کا ایک وقت حدیثِ مبارکہ میں بھی بیان ہوا ہے۔ فرمان ِمصطفی ہے:آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے: کوئی ہے دعا کرنے والاکہ اس کی دعا قبول کی جائے؟ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے؟ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے؟اس وقت بدکاری کرنے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس لینے والے کے علاوہ ہر دعا کرنے والی مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔(معجم اوسط باب الف، الحدیث 769)


اسلام رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کیے جانے والے ہر عمل پر ثواب اور اسے عبادت قرار دیتا ہے خواہ وہ عبادت حقوق اللہ سے ہوں یا حقوق العباد سے نیز ایک طرف ان کے ہر ہر عمل کو عبادت قرار دیتا ہے۔ ان متعدد عبادتوں میں سے ایک عبادت ذکر و اذکار اور دعا بھی ہے جس کے لیے وقت کی قید نہیں نہ  مقام کی۔ دعا بیچارگی کے اظہار کو کہتے ہیں یعنی اللہ پاک کی قدرت کے سامنے اپنی کم مائیگی اور ذلت کا اظہار ہی عبادت کی اصل روح ہے اس لیے دعا کو عین عبادت قرار دیا گیا۔دعا رب العالمین سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے اور اس کے فضل و انعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان ذریعہ ہے ۔اسی طرح پیارے مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی متوارث سنت ، اللہ رب العالمین کے پیارے بندوں کی عادت درحقیقت عبادت بلکہ مغز ِعبادت اور ہم گناہ گاروں کے حق میں اللہ رب العزت کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت اور سعادت ہے۔دعا کی اہمیت کا اندازہ اللہ رب العالمین کے اس ارشاد سے کیا جاسکتا ہے:ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسْتَکْبِرُوۡنَ عَنْ عِبَادَتِیۡ سَیَدْخُلُوۡنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیۡنَ مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر۔24، المؤمن: 60)15امکنہ اجابت :چوالیس مقامات ایسے ہیں جو امکنہ اجابت(یعنی وہ مقامات جہاں دعا قبول ہوتی ہے )میں سے ہیں جن میں سے پندرہ عنوان کے تحت درج کیے جاتے ہیں:(1) مطاف :یہ وسطِ مسجد الحرام شریف میں ایک گول قِطْعَہ ہے، سنگ ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی زمین کا وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے)اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں۔زمانہ اقدس حضور سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میں مسجد اسی قدر تھی ۔(2)ملتزم وہ مقام جو کعبۃ اللہ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجرِ اسود اور بابِ کعبہ کے درمیان واقع ہے یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں مانگتے ہیں۔ (3)زیرِ میزاب: امیر اہل سنت دامت برکاتہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں:میزاب ِرحمت سونے کا پرنالہ :یہ رکنِ عراقی اور شامی کی شمالی دیوار پر چھت پر نصب ہےاس سے بارش کا پانی حطیم پر نچھاور ہوتا ہے ۔مزید اس پر بطور حاشیہ ارشاد فرماتے ہیں: میری ناقص معلومات کے مطابق مکے مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اپنے مزارِ فائض الانوار میں چہرہ ٔا نور میزابِ رحمت کی طرف ہے (4)حجرِ اسود :یہ وہ جنتی پتھر ہے جو کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ اسود میں نصب ہے مسلمان اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں (5)رکن ِیمانی: یہ یمن کی جانب مغربی کونا ہے خصوصا جب کہ طواف کرتے وہاں سے گزر ہو حدیث شریف میں ہے:یہاں اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہے،ہزار فرشتے آمین کہیں گے، (6)خلفِ مقامِ ابراہیم(7)مسعیٰ خصوصا دونوں میل سبز کے درمیان (8)صفا (9)مروہ(10)مقامِ استجابت دعا جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کریں ۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :میں کہتا ہوں : اگر ان جگہوں میں دعا کی قبولیت کو عام کہا جائے یعنی کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے تو بھی بعید نہیں کیوں یہی اللہ پاک کے فضل و کرم کے زیادہ موافق ہیں۔قال اللہ:ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہ یہاں پکارا ذکریا نے اپنے رب کو (11)مواجھہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی؟ (12) منبر ِاطہر کے پاس (13) مسجد ِقباء شریف میں(14)مسجد الفتح میں خصوصا ًروز چہار شنبہ بین الظہر والعصر(بدھ کے ظہر و عصر کے درمیان )حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسجد فتح میں تین دن دعا فرمائی(14)مسجد فتح میں تین دن دعا فرمائی، دوشنبہ، سہ شنبہ، چہار شنبہ (یعنی پیر، منگل اور بدھ کے دن)۔ چہار شنبہ کے دن دونوں نماز وں کے بیچ میں اِجابت فرمائی گئی کہ خوشی کے آثار چہرۂ انور پر نمودار ہوئے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہفرماتے ہیں:جب مجھے کوئی امرِ مُہِم(اہم کام)بَشِدَّت پیش آتا ہے، میں اس ساعت میں دعا کرتا ہوں اِجابت ظاہر ہوتی ہے۔(15)مزارِ مطہر ابو حنیفہ کے پاس:حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب مجھے کوئی حاجت پیش آتی تو دو رکعت نماز پڑھتا اور قبر ِامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پرجا کر دعا مانگتا ہوں ۔اللہ پاک روا (پوری) فرماتا ہے۔اس کے علاوہ دیگر مزارات ِاولیا پر بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔


دعا اللہ پاک سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے،اس کے فضل و کرم کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان مجرب ذریعہ ہے۔دعا کی اہمیت کا اندازہ اللہ پاک کے اس ارشاد سے ہوتا  ہے :ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕ مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی امت کے لیے دعا کرتے ہیں:ربِّ ھب لی امتی ۔احادیثِ مبارکہ میں بار بار دعا کی ترغیب دلانے اور دعا نہ مانگنے پر رب کریم کی ناراضی کا اظہار فرمایا ۔دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ کچھ مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں بندے کی دعا قبول ہوتی ہے یعنی جس جگہ کوئی ولی رہتے ہوں یا رہے ہوں یا کبھی بیٹھے ہوں وہ جگہ حرمت والی ہو جاتی ہے وہاں عبادت اور دعا زیادہ قبول ہوتی ہے*بیت المقدس کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اور یاد کرو جب ہم نے کہا کہ داخل ہو تم اس بستی میں پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔اس آیت ِمبارکہ میں بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئےگھسو اور معافی چاہو۔ بیت المقدس انبیاء کرام کی بستی ہے جس کی تعظیم کرائی گئی اور قبولیت ِدعا کی جگہ بتائی گئی تو معلوم ہوا :جس جگہ کو اللہ پاک کے پیاروں کی نسبت حاصل ہو جائے وہ متبرک ہو جاتی ہے۔ *حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے محراب کی جگہ :ترجمہ: وہاں مریم کے پاس زکریا نے دعا مانگی عرض کیا اے میرے رب مجھے اپنی طرف سے ستھری اولاد دے بے شک تو دعا سننے والا ہے۔(سورہ ال عمران :38) حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے محراب کی جگہ کھڑے ہو کر دعا مانگی اولاد کی تو ان کی دعا قبول ہوئی * ملتزم :قبولیت ِدعاکا مقام ہے۔(رفیق الحرمین: ص 117) *صفا:قبولیت کا مقام ہے۔(رفیق الحرمین: ص 125) *مطاف:(فضائلِ دُعا : ص 128) *داخلِ بیت:بیت اللہ کی عمارت کے اندر *زیرِ میزاب *حطیم *حجرِ اسود (فضائلِ دُعا: ص 130) *رکنِ یمان* خلف ِمقام ِابراہیم (فضائلِ دُعا: ص 131) *مروہ *مسعیٰ خصوصا دونوں میل سبز کے درمیان عرفات خصوصا مزدلفہ خصوصا مشعر الحرام *منیٰ* نظر گاہِ کعبہ *مسجدِنبی (فضائلِ دُعا: ص 132 تا 133) یہ وہ مقامات ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔


دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگار عالم نے اپنے بندوں کو کرامت فرمائی اور ان کوتعلیم کی، حلِ مشکلات میں اس سے زیادہ کوئی چیز موثر نہیں  اور دفعِ بلا و آفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں ۔اسی طرح دعا پیارے مصطفیٰ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی متواتر سنت، اللہ رب العزت کے پیارے بندوں کی متواتر عادت درحقیقت عبادت بلکہ مغزِ عبادت اور گناہ گار بندوں کے حق میں رب العزت کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت اور سعادت ہے۔دعا کی اہمیت اور وقعت کا اندازہ قرآنِ پاک میں اللہ رب العزت کے ارشاد کے مطابق: اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙمیں دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔(فضائلِ دُعا: ص : 48) حدیثِ قدسی:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں یعنی جیسا گمان مجھ سے رکھتاہے میں اس سے ویسا ہی کرتا ہوں وانا معہ اذا دعانیاور میں اس کے ساتھ ہوں جب مجھ سے دعا کرے ۔(فضائلِ دُعا: ص : 48) قبولیت دعا کے پندرہ مقامات : 1)میزابِ رحمت کے نیچے 2)زم زم کے کنویں کے قریب 3)صفا 4)مروہ 5)تینوں جمعرات کے قریب 5)جب جب کعبہ مشرفہ پر نظر پڑے 6)مواجہہ شریف امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی 7)منبر ِ اطہر کے پاس 8)مسجدِ نبوی کے ستونوں کے نزدیک 9)مسجد قباء شریف 10)مشاہدمبارکہ جس جس مقام پر سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے 11)مساجد طیبہ جن کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے مثلاً مسجد غمامہ اور مسجد قبلتین وغیرہ 12)مبارک کنویں جنہیں سرور ِکونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے13) جبلِ احد 14)مزاراتِ بقیع ۔یہ وہ مقامات ہیں جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔آیت ِمبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ: اگروہ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے حضور حاضر ہوں اور اللہ سے معافی مانگیں اور رسول ان کی بخشش چاہیں تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(سورۃ النساء: 64)صحابہ کرام کا بھی یہ طریقہ کار رہا کہ وہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حضور حاضر ہو کر دعا مانگتے تو ان کی دعا قبول ہوتی تھی ۔قال اللہ: ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہ یہاں زکریا نے اپنے رب کو پکارا۔حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا پر فضل ِاعظم ،ربِ اکرم کی طرف سےبے فصل کے میوے انہیں ملنا دیکھ کر وہیں اپنے لیے فرزند عطا ہونے کی دعا کی تو ان کی دعا پوری ہوئی ۔حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی ہے دو رکعت نماز پڑھتا اور قبرِ امام ابو حنیفہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں اللہ پاک پوری فرماتا ہے ۔(رسالہ قبولیت دعا کے اوقات)


اللہ پاک مقامات کا خالق و مالک ہے اور تمام مقامات اسی کے پیدا کردہ ہیں ان میں سے ایسے مقامات بھی ہیں جن میں کی جانے والی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ بہت جلد نصیب ہوتا ہے ۔اللہ پاک ہمیں ان مقامات کی حاضری کی توفیق سے نوازے۔ ذیل میں چند مقامات کا تذکرہ  کیا جاتا ہےجن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں:(1)زم زم کنواں :مکہ مکرمہ کا وہ مقدس کنواں جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بچپن شریف میں آپ کے ننھے ننھے مبارک قدموں کی رگڑ سے جاری ہوا تھا۔ ( 2) مستجار :حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نماز پڑھنے کے مقام پر (3) مقامِ ابراہیم: دروازہ کعبہ کے سامنے ایک گنبد میں وہ جنتی پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے کعبہ شریف کی عمارت تعمیر کی تھی (4)حطیم :کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے آس پاس دائرے کی شکل میں باؤنڈری کے اندر کا حصہ ہے یہ کعبہ شریف ہی کا حصہ ہے۔(رفیق الحرمین ص61) (5)ملتزم: رکنِ اسود اور کعبہ کی درمیانی دیوار ہے۔ ملتزم مقام پر بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(رفیق الحرمین ص61) (6) مستجاب: رکنِ یمانی اور رکنِ اسود کے بیچ کی جنوبی دیوار یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لیے مقرر ہیں اسی لیے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام کا نام مستجاب رکھا ہے۔(رفیق الحرمین ص61) (7)اسی طرح حجرِ اسود پر بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(رفیق الحرمین ص61) (8)کوہِ صفا: کعبہ معظمہ کےجنوب میں واقع ہے۔(رفیق الحرمین ص62) (9)کوہِ مروہ: کوہِ صفا کے سامنے واقع ہے۔(رفیق الحرمین ص61) (10)مسجدِ قباء :مسجد ِطیبہ سے تقریباً تین کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف قبا نامی قدیمی گاؤں ہے جہاں یہ متبرک مسجد بنی ہوئی ہے۔(بخاری، جلد 1، ص 402، حدیث1193) (11)مواجہہ شریف :امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعایہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی؟(حصن حصین ص:31) (12)مسجدِ نبوی کے ستونوں کے نزدیک دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔مسجد فتح میں خصوصا ًبدھ کو ظہر و عصر کے درمیان دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔(13)وہ مبارک کنویں جنہیں سرور کونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے۔ (14)مشاہد متبرکہ :اس کے معنی ہیں:حاضر ہونے کی جگہ ۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جس جس مقام پر سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے وہاں دعا قبول ہوتی ہے مثلا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا مقدس باغ (15) مزاراتِ بقیع ،تاریخی روایت کے مطابق جنت البقیع میں تقریبا دس ہزار صحابہ کرام آرام فرما ہیں ۔(رفیق الحرمین ص 67 +68)اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں ان مقامات پر دعا مانگنے کی توفیق سے نواز دے اوران مبارک مقامات کی حاضری نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسجد فتح میں تین روز تک دعا کی پیر کے دن اور منگل کے دن اور بدھ کے دن آپ کی دعا دو نمازوں ظہر اور عصر کے درمیان قبول ہو گئی تو آپ کے چہرہ ٔانور پر خوشی کے آثار نمایاں ہوگئے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :اس کے بعد جب بھی مجھے کوئی شکل صورت حال پیش آئی تو میں نے انہی گھڑیوں میں دعا مانگی اور میرا مسئلہ حل ہو گیا۔(مسند احمد)اس کے علاوہ ان مقامات میں دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مکہ مکرمہ کے چند مقامات :(2)مطاف :وہ جگہ جہاں طواف کیا جاتا ہے کہ یہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور جہاں رحمتوں کا نزول ہو وہاں دعا مقبول ہوتی ہے۔(3)مستجاب: کعبہ کی دو دیواروں رکن ِیمانی اور رکنِ اسود کی بیچ کی جنوبی دیوار یہاں ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لیے مقرر ہیں اسی لیے سیدی اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام کا نام مستجاب یعنی دعا کی قبولیت کی جگہ رکھا ہے۔ (4)ملتزم (5)زم زم کے کنویں کے قریب(6) آب زم زم پیتے ہوئے ۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:زم زم جس مراد سے پیا جائے اسی کے لیے۔(ابن ماجہ ج 3 ص 490 حدیث 3062)(7)بیت اللہ کے اندر(8)عرفات خصوصا مؤقف نبی پاک کے نزدیک مدینہ منورہ کے چند مقامات(9)مسجدِ نبوی (10) مواجہہ شریف:امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں قبول ہوگی؟(11)منبرِ اطہر کے پاس(12)مسجدقباء شریف میں(13)مساجد طیبہ جن کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سرورِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے مثلا مسجد غمامہ و مسجد قبلتین(14)مشاہد ِمبارکہ(یعنی حاضر ہونے کی جگہ ) یہاں مراد یہ ہے جس جس مقام پر سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے وہاں دعا قبول ہوتی ہے مثلا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا مقدس باغ وغیرہ(15) مزاراتِ بقیع۔


اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ؕمجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔(پارہ 24، سورہ المومن، آیت نمبر 60)اسی طرح حدیثِ مبارکہ ہے:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :کیا میں تمہیں وہ چیزیں نہ بتاؤں جو تمہیں تمہارے دشمن سے نہیں نجات دے اور تمہارے رزق وسیع کر دے !رات دن اللہ پاک سے دعا مانگتے رہو کہ دعا سلاحِ مومن (یعنی مومن کا ہتھیار) ہے۔(مسند ابی یعلی جلد 2 صفحہ 201 تا 202، حدیث 1806) مذکورہ آیت اور حدیث پڑھ کر ہو سکتا ہے کہ یہ خیال آئے کہ ہم اکثر بیماری سے شفا یا رزق میں کثرت کی دعا مانگتی ہیں یا اس کے علاوہ بھی دعا مانگتی ہیں لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوتی تو اس پر علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں: فرمانِ الٰہی حق ہے! واقعی ہر بندے کی دعا ضرورقبول ہوتی ہے مگر بعض دفع جو چیز ہم مانگتے ہیں وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتی اور اس وقت اللہ پاک ہماری اس دعا کے بدلے میں یا تو اس کا نعم البدل عطا کر دیتا ہے یا ہماری مصیبتوں کو ٹال دیتا ہےیا ہمارے درجات بلند فرما دیتا ہے یا پھر ہمارے گناہ معاف فرما دیتا ہے الغرض یہ کہ کوئی بھی ہماری دعا ضائع نہیں ہوتی بشرطیکہ آداب ِدعا کا خیال رکھا جائے کہ آدابِ دعا قبولیت کا سبب ہے بلکہ بعض آداب ایسے ہیں جو دعا میں شرط کی حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ یکسوئی کے ساتھ دعا کرنا،سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود ِپاک پڑھنا اور دیگر نیک امور بجا لا کر دعا کرنا اسی طرح بابرکت مقامات پر بھی دعا قبول ہوتی ہے جیسے کہ (1)مطاف :مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یہ وسط ِمسجد حرام میں ایک گول قطعہ ہے سنگ مرمر سے بچھا ہوا فرش اس کے بیچ میں کعبہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں زمانۂ اقدس میں مسجد اسی قدر تھی۔(2)داخلِ بیت:بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر(3)زیرِ میزاب: میزابِ رحمت یعنی رحمت کا پرنالہ یہ کعبے کی چھت پر سونے کا پرنالہ نصب ہے۔ (4)حطیم: کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل کے اندر کا حصہ کعبہ معظمہ کا ہی حصہ ہے۔(5)حجرِ اسود :یہ جنتی پتھر ہے جو کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ اسود میں نصب ہے۔(6)خلف ِمقامِ ابراہیم:مقامِ ابراہیم کے پیچھے (7)نزد زمزم: زم زم کے کنویں کے پاس(8)نظر گاہ ِکعبہ :جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقام قبولیت ہے۔(9)مسجدِ نبوی (10)مواجہہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :امام ابنِ جزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو پھر کہاں ہوگی؟(11)منبر ِاطہر کے پاس(12)مسجدِ اقصیٰ اقدس کے ستونوں کے نزدیک(13)اولیاء اور علماء کی مجلسوں میں کہ حدیثِ قدسی ہے: یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔(14)حضوراقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تمام مشاہد متبرکہ :وہ تمام مقامات جہاں ہمارے آقا و مولا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظاہری حیاتِ مبارکہ میں تشریف لے گئے۔(15) مزاراتِ اولیاء جیسے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جب مجھے کوئی حاجت پیش آتی ہے تودو رکعت نماز پڑھتا ہوں اور قبرِ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں تو اللہ پاک پوری فرماتا ہے ۔

یا الٰہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو جب پڑے مشکل شہ ِمشکل کشا کا ساتھ ہو


قبولیتِ دعا کے پندرہ مقامات :ارشادِباری ہے:ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْترجمہ:مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔(پارہ 24، المومن 60) تفسیر: اس آیت میں لفظ ادعونی کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا ہے ،اب معنی یہ ہوا کہ اے لوگو! مجھ سے دعا کرو میں اسے قبول کروں گا۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد عبادت ہے،اب معنی یہ ہوا کہ تم میری عبادت کرو میں تمہیں ثواب دوں گا۔(تفسیر کبیر ج13، ص 350) دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیات ِکریمہ اور احادیثِ طیبات وارد ہیں ۔دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دعا اللہ پاک سے ہماری محبت کے اظہار ،اس کی شان ِالوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت ،اس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اس کی ذات پاک پر ہمارے ایمان کااقرار و ثبوت ہے ۔ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ پاک ہمارا خالق مالک رازق ہے اور رب العالمین ارحم الراحمین احکم الحاکمین مالک الملک ہے۔ تمام عزتیں، عظمتیں ،قدرتیں ،خزانے، ملکیتیں، بادشاہتیں اسی کے پاس ہیں۔ سب کا داتا اور داتاؤں کا داتا ہے ۔ساری مخلوق اسی کی بارگاہ کی محتاج ہے اور اسی کے دربار میں سوالی ہے جب کہ وہ عظمتوں والا خدا ہے ۔بے نیاز ،غنی ،بے پرو اور تمام حاجتوں سے پاک ہے۔ہاں! وہ جواد و کریم ہے ۔بخشش فرماتا اور جودو کرم کے دریا بہاتا ہے ۔ایک ایک فرد ِمخلوق کو اربوں خزانے عطا کر دے تب بھی اس کے خزانوں میں سوئی کے نوک برابر کمی نہ ہوگی اور کسی کو کچھ عطا نہ کرے تو کوئی اس سے چھین نہیں سکتا ۔وہ کسی کو دینا چاہے تو اسے روک نہیں سکتا ۔وہ کسی سے روک لے تو کوئی اسے دے نہیں سکتا ۔جب ہم دعا مانگتی ہیں تو اللہ پاک کے بارے میں یہی عقیدہ اور ایمان ہمارے دل و دماغ میں شعوری و لا شعوری طورپر موجود ہوتا ہے جو الفاظ و کیفیات کی صورت میں دعا کے سانچےمیں ڈھل جاتا ہے ۔اس حکمت کو سامنے رکھ کر غور کر لیجئے کہ جب دعا اس قدر عظیم عقیدے کا اظہار ہے تو کیوں نہ اعلیٰ درجے کی عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار پائے ۔ اس تمہید کو سامنے رکھ کر دعا کے فضائل پڑھیے اور رحمتِ خداوندی پر جھومیے چنانچہ دعا کے فضائل کے متعلق چند احادیثِ کریمہ پیشِ خدمت ہیں:(1) اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ نہیں۔(ترمذی 5/243 حدیث 3381)(2)دعا مصیبت و بلا کو اترنے نہیں دیتی۔(مستدرک 2/162، حدیث 1856) (3)دعا مسلمانوں کا ہتھیار،دین کا ستون اورآسمان و زمین کا نور ہے۔(مستدرک 2/132، حدیث 1855) (4)دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(ترمذی 5/318، حدیث3551)(5)دعا رحمت کی چابی ہے۔(الفردوس2/224، حدیث 3086) دعا قضاکو ٹال دیتی ہے۔(مستدرک، 3/548، حدیث 6038)جب ان شرطوں کو پورا کرتے ہوئے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول ہوتی ہے لیکن یہ دھیان میں رکھیے کہ قبولیتِ دعا کا اصل معنی ہے کہ بندے کی پکار پر اللہ پاک کا اسے لبیک عبدی فرمانا یہ ضروری نہیں کہ جو مانگا وہ مل جائے بلکہ مانگنے پر کچھ ملنےکا ظہور دوسری صورتوں میں بھی ہو سکتا ہے مثلا اس دعا کے مطابق گناہ معاف کر دیے جائیں یا آخرت میں اس کے لیے ثواب ذخیرہ کر دیا جائے یا اصل مانگی ہوئی شے بندے کی زیادہ ضرورت کے وقت تک مؤخر کر دی جائے ۔دعا مانگ کر نتیجہ اللہ پاک کے ذمہ کرم پر چھوڑ دینا چاہیے کہ رحمان و رحیم خدا ہمارے ساتھ وہی معاملہ فرمائے جو ہمارے حق میں بہتر ہے ۔قضائے الہٰی پر راضی رہنا بہت اعلیٰ مرتبہ ہے اور حقیقت میں ہمارے لیے یہی مفید تر ہے کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے جبکہ خدا کا علم لا متناہی و محیط ہے ۔بارہا ہم اپنی کم علمی سے کوئی چیز مانگتی ہیں لیکن اللہ پاک اپنی مہربانی سے ہمیں منہ مانگی چیزیں نہیں دیتا کیونکہ وہ چیز ہمارے حق میں نقصان دہ ہوتی ہے مثلا بندہ مال و دولت کی دعا کرتا ہے لیکن وہ اس کے ایمان کے لیے خطرناک ہوتی ہے یا آدمی تندرستی و عافیت کا سوال کرتا ہے لیکن علم ِالہٰی میں دنیا کی تندرستی آخرت کے نقصان کا باعث ہے تو یقینا ًایسی دعا قبول نہ کرنا بندوں کے لیے اچھا ہے ۔نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دعائیں بہت جامع ہیں ان میں سے کچھ اپنے لیے منتخب کر لیجئے تو بہت عمدہ ہے ۔ایک جامع دعا یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اے اللہ پاک! مجھے ایمان اور تقوی ٰ،صحت و عافیت ،خوشیوں اور خوشحالیوں والی لمبی زندگی عطا فرما! جان و مال، عزت اور اہل ِخانہ کے حوالے سے برے وقت اور آزمائش سے محفوظ فرما۔عافیت کے ساتھ ایمان پر خاتمہ، نزاع میں آسانی ،قبر اور جہنم کے عذاب سے حفاظت ،محشر کی گھبراہٹ سے امن ،جنت الفردوس میں بے حساب داخلہ عطا فرما ۔یہ سب دعائیں میرے ماں باپ ،شوہر،اولاد، بہن بھائیوں کے حق میں قبول فرما ۔آمین ۔دعا قبول ہونے کے پندرہ مقامات :محترم اسلامی بہنو! یوں تو حرمین شریفین میں ہر جگہ انوار و تجلیات کی چھما چھم برسات برس رہی ہے تاہم احسن الوعا لآداب الدعا سےبعض دعا قبول ہونے کے مخصوص مقامات کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آپ ان مقامات پر مزید جمعی اور توجہ کے ساتھ دعا کرسکیں ۔ مکہ مکرمہ کے مقامات یہ ہیں: 1۔مطاف 2۔ملتزم 3۔مستجار 4۔بیت اللہ کے اندر 5میزابِ رحمت کے نیچے 6۔حطیم 7حجر ِاسود 8۔رکنِ یمانی خصوصا جب دورانِ طواف وہاں سے گزر ہو 9۔مقام ابراہیم کے پیچھے 10۔زم زم کے کنویں کے قریب ۔مدینہ منورہ کے مقامات (1)مسجد نبوی (2)مواجہہ شریف :امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!(حصن حصین ص 31) (3)منبرِ اطہر کے پاس 4۔مسجد قبا 5۔وہ مبارک کنویں جنہیں نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے خاص نسبت ہے۔آباد مسلمانوں کا قبلہ و مرکز ہے ۔خانہ کعبہ سے ملحق مختلف مقامات ہیں جو اپنی منفرد تاریخی اہمیت اور خصوصیت رکھتے ہیں انہی مقامات میں سے ایک ملتزم بھی ہے۔ ملتزم کیا ہے؟بابِ کعبہ اور حجر ِاسود کے درمیان بیت اللہ کی دیوار کا حصہ ملتزم کہلاتا ہے۔بیت اللہ کے وہ مقامات جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں ان میں ملتزم کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ملتزم کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ملتزم ایسی جگہ کو کہتے ہیں جس سے چمٹا جاتا ہے یہ تقریبا دو میٹر طویل ہے زائرین یہاں اپنے رب سے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں اور دنیا و آخرت کی نعمتیں عطا کرنے کی التجا کرتے ہیں۔


قبولیتِ دعا کے پندرہ مقامات :دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے جیسا کہ فرمانِ آخری نبی  ہے:الدعاء مخ العبادۃ دعا عبادت کا مغز ہے۔اللہ پاک سے خیر طلب کرنے کو دعا کہتے ہیں۔دعا کے ذریعے ہی بندہ اللہ کریم کی بارگاہ میں اپنی حاجات و ضروریات پیش کرتا ہے ۔دعا بندے کو اپنے کریم رب کی جناب میں اس کے حضور عاجزی کرواتی ہے۔قرآن و حدیث میں بھی دعا کے کئی فضائل بیان ہوئے چنانچہ فرمانِ باری ہے: ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْترجمہ مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا۔(پارہ 24، المومن 60)حدیثِ قدسی میں ہے: نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اے ابن آدم !تو جب مجھ سے دعا کرتا ہے اور میرا امیدوار رہے گا تیرے گناہ کیسے ہی ہوں معاف فرماتا رہوں گا اور مجھے کچھ پروا نہیں ۔مقامات: دعا کی اتنی اہمیت و فضلیت ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دعا کے آداب کیا ہیں اورکن مواقع پر دعا مانگنی چاہیے ۔کن مقامات پر دعا قبول ہوتی ہے چنانچہ دعا کی قبولیت کے پندرہ مقامات ملاحظہ ہوں 1۔بیت اللہ کے اندر 2۔میزابِ رحمت کے نیچے 3۔ میدانِ عرفات میں۔ 4۔حجر ِاسود کے پاس 5۔حطیم میں 6مقام ِابراہیم کے پیچھے 7صفا و مروہ پر 8مواجہہ شریف حضور سید الشافعین 9منبر اطہر کے پاس 10مسجد نبوی کے ستونوں کے درمیان 11 مزارات بقیع پر 12۔مسجد نبوی شریف میں۔ 13۔جبل احد یعنی احد پہاڑ پر14بزرگان دین کے مزارات پر جیسے حضور غوث اعظم کے مزار پر انوار کے پاس ۔خواجہ غریب نواز و امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہم 15۔اسی طرح تمام اولیاء صلحاء محبوبان خدا کی بارگاہ میں لہذا جہاں اولیاء و علماء کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں وہاں دعا کرنی چاہیے کیونکہ اولیاء بہ کثرت دعا کرتے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے تو جہاں وہ رہے ہوں گے وہاں ضرور دعا قبول ہوتی ہوں گی۔ خاص مقامات پر دعا کی قبولیت کے چند واقعات بھی ملتے ہیں چنانچہ سورۂ الِ عمران کی آیت 37 تا 39کے متعلق تفسیر صراط الجنان میں ہے ۔واقعہ:جس مقام پر حضرت مریم رضی اللہُ عنہا کو غیب سے رزق ملتا تھا وہیں حضرت زکریا علیہ السلام نے پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی۔ حضرت زکریا بڑے عالم تھے بارگاہ ِالہٰی میں قربانیاں آپ ہی پیش کیا کرتے تھے اور مسجد شریف میں آپ کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ جس وقت محراب میں آپ نماز میں مشغول تھے اور باہر آدمی داخلے کی اجازت کا انتظار کر رہے تھے دروازہ بند تھا اچانک آپ نے ایک سفید پوش جوان کو دیکھا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے انہوں نے آپ کو فرزند کی بشارت دی کہ آپ کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام یحیی ہوگا وہ اللہ پاک کے کلمہ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی تصدیق کرے گا یوں آپ کی دعا قبول ہوئی۔


دعا کے معنی :دعا کے لغوی معنی :بلانا، پکارنا ،متوجہ کرنا ہے۔  اللہ پاک سے خیر طلب کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ دعا کی اہمیت و فضلیت: دعا کی اہمیت ہر مسلمان جانتا ہے ہمیں اللہ پاک سے کیا اور کن الفاظ سے کس طرح دعا مانگنی چاہیے اس کی اہمیت کا اندازہ بیان کردہ احادیث سے لگایا جاسکتا ہے ۔ دعا کی اہمیت احادیث کی روشنی میں :حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ ترنہیں ۔(حوالہ دعا قبول ہونے کےاسباب،صفحہ03)نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتےہیں:الدعا سلاح المومن و عماد الدین و نور السموت یعنی دعا مومن کا ہتھیار ،دین کا ستون اور آسمان کا نور ہے۔ الدعاء مخُّ العبادۃ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے ۔(حوالہ آداب دعاصفحہ 02) دعا کی اہمیت :قرآن کی روشنی میں: اللہ پاک فرماتا ہے :میں دعا مانگنے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے ۔(پ02، سورۃ البقرۃ، آیت 184) اللہ پاک فرماتا ہے :مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا ۔(پ 24سورۃ المومن آیت 40)اس کے علاوہ رب کریم فرماتا ہے: جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر ۔(پ 24سورۃ المومن آیت 40)یہاں عبادت سے مراد دعا ہے۔ (دعا قبول ہونے کے اسباب صفحہ 01) 15امکنہ اجابت:لفظ امکنہ مکان کی جمع ہے اور اجابت معنی قبول ہونے کے ہیں یہاں یہ مراد ہے کہ وہ مقامات جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ ذیل میں موجود اول الذکر تیرہ 13مقامات مصنف رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فضائلِ دعا جس کی شرح اعلیٰ حضرت امام ِاہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اس سے اقتباس ہیں : 1مطاف :یہ وسطِ مسجد الحرام میں ہے یہاں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ 2۔ملتزم: یہ کعبہ معظمہ کی دیوار شرقی پارہ جنوبی کا نام ہے جو درمیانِ کعبہ و سنگ ِاسود واقع ہے یہاں لپٹ کر دعا کرتے ہیں۔ 3۔داخلِ بیت(بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر ) 4۔زیر ِمیزابِ رحمت(خانہ کعبہ کی چھت سونا کا پرنالہ ہے اس کے نیچے ) 5۔ حجر ِاسودجنتی پتھر ہے۔ 6۔رکنِ یمانی کہ یہ یمن کی جانب مغرب کونا ہے 7۔نزد زم زم :چاہ زم زم کے پاس۔ 8۔صفا پہاڑی ہے۔ 9۔حطیم :خانہ کعبہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں باؤنڈری کے اندر کا حصہ۔ خلفِ مقامِ ابراہیم :مقام ِابراہیم کے پیچھے۔ 10۔مسعیٰ خصوصا دونوں میل سبز کے درمیان۔ مقام ِمسعی یعنی صفا مروہ کے درمیان کا راستہ خصوصا جب دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے وہ بھی دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔ 11۔استجابتِ دعا: جہاں ایک مرتبہ پہلے دعا قبول ہوئی ہو وہاں دعا کرنا 12۔مسجد ِنبوی ۔ 13۔میدانِ عرفات ۔(حوالہ فضائل دعا صفحہ 128 تا 131)ترجمہ: وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگی عرض کی اے میرے رب مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے ۔اس آیت سے دعا قبول ہونے کے مقامات معلوم ہوتے ہیں۔ 14۔جس جگہ رحمت ِالہٰی کا نزول ہو وہاں دعا مانگنی چاہیے جس مقام پر حضرت مریم رضی اللہُ عنہا کو غیب سے رزق ملتا تھا وہاں حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا مانگی تو حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحیی علیہ السلام جیسی پاکیزہ اولاد عطا کی گئی۔ 15۔جہاں اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں ۔(حوالہ صراط الجنان، جلد 01، صفحہ 469 تا 470) 


دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیات ِکریمہ اور احادیثِ طیبہ وارد ہیں۔ دعا کی عظمت میں حکمت :دعا کی عظمت میں حکمت یہ ہے کہ دعا اللہ کریم سے ہماری محبت کے اظہار اور اس کی ذات پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار ،عظیم عقیدے کا اظہار  ہے۔جب دعا مانگی جاتی ہے تو یہ عقیدہ کہ اللہ کریم ہی ہمارا خالق، مالک،رازق ہے۔تمام عزتیں،عظمتیں،خزانےاسی کے پاس ہیں ۔ایک ایک فرد کو اگر وہ اربوں خزانے عطا کر دے تب بھی اس کے خزانوں میں کوئی سوئی کی نوک برابر کمی نہ ہو گی ۔جب دعا اس قدر عظیم عقیدے کا اظہار ہے تو کیوں نہ اعلیٰ درجے کی عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار پائے۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔ الحدیث۔دعا کی اہمیت قرآن کی روشنی میں: ترجمہ :میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔(سورۃ البقرہ)ترجمہ: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے۔( سورہ المومن ) (یہاں عبادت سے مراد دعا ہے) دعا کی اہمیت احادیث کی روشنی میں: اللہ کریم کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ تر نہیں۔ (ترمذی 5/243 حدیث 3381)دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(ترمذی 5/318 حدیث 3551)اللہ کریم دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ (مسلم، ص 1442، حدیث 2675) جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے۔ (ترمذی، 11/459۔ حدیث 3471)الدعاء سلاح المومن و عماد الدین و نور السموتدعا مسلمانوں کا ہتھیار،دین کا ستون اور آسمانوں کا نور ہے۔ قبولیت دعا کے 15مقامات: مکہ مکرمہ کے کچھ مقامات(1)مطاف (2)بیت اللہ کے اندر (3) ملتزم (4)میزابِ رحمت کے نیچے(5)مستجار(6)حطیم(7)حجر ِاسود(8)مقام ِابراہیم کے پیچھے(9)صفا (10) مروہ۔مدینہ منورہ کے کچھ مقامات:(11)مسجد نبوی(12)مواجہہ شریف۔ امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!(13)منبرِ اطہر کے پاس (14)مسجد قباء شریف ۔مسجد فتح بھی اور باقی مساجد طیبہ جن کو آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے نسبت حاصل ہے۔(15) مزاراتِ بقیع( روایت کے مطابق یہاں پر تقریبا دس ہزار صحابہ کرام علیہم الرضوان آرام فرما ہیں)قبولیتِ دعا کے مقامات میں دعا قبول ہونے کاایک خوبصورت واقعہ قرآن پاک سے ثابت :جب زکریا علیہ السلام کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے تو اس کے پاس پھل پاتے زکریا نے سوال کیا :اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟انہوں نے جواب دیا :اللہ کی طرف سے بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا جو کہ ابھی پالنے یعنی جھولے میں پرورش پا رہی تھی کی یہ کرامت دیکھی تو ان کے دل میں بھی نیک اولاد کی خواہش پیدا ہو گئی جس کی انہوں نےدعا مانگی ۔اس کو قرآن ِمجید نے یوں بیان فرمایا: ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہوہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگیوہیں بیت المقدس کے محراب شریف میں ہی حضرت علیہ السلام نے نیک و پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی ۔آیت: ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہ سے معلوم ہونے والے دعا کے آداب :اس آیت سے چند چیزیں معلوم ہوئی جس جگہ رحمتِ الہٰی کا نزول ہوا ہو وہاں دعا مانگنی چاہیے اور وہاں دعا قبول بھی ہوتی ہے جیسے حضرت زکریا علیہ السلام کی قبول ہوئی۔ اسی لئے خانہ کعبہ اور تاجدار ِرسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روضے پر دعا مانگنے میں زیادہ فائدہ ہے۔ علماء کرام نے اس جگہ کو قبولیت کے مقامات میں شمار کیا ہے جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم،صحابہ کرام و تابعین علیہم الرضوان اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہ غرض ہر زمانے کے نیک لوگ رہے ہیں اور نیک لوگوں کی عادتِ کریمہ ہی ہوتی ہے کہ وہ دعا مانگتے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے۔ کعبہ معظمہ کی فضیلت قرآن سے ثابت :بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایاگیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان والوں کے لیے ہدایت اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو۔ خانہ کعبہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی طرف نماز پڑھی۔ تمام لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا جبکہ بیت المقدس مخصوص وقت میں خاص لوگوں کا قبلہ رہا مکہ معظمہ میں واقع ہے جہاں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ہے اس کا حج فرض کیا گیا اسے امن کی جگہ قرار دیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہنے فرمایا :اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔ اس میں بہت سی نشانیاں رکھی گئی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب تعمیر کعبہ فرما رہے تھے وہ ایک پتھر پر کھڑے ہوتے جو خود بخود اونچا ہوتا تھا اسی کو مقامِ ابراہیم کہتے ہیں یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اس کے علاوہ صفا مروہ پہاڑوں پر حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا کے قدم مبارک پڑے اور پانی کی دعا کی جو کہ اللہ پاک نے قبول فرمائی اور آبِ زم زم جا ری فرمایا۔ القرآن :بےشک صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اسی طرح حجر ِاسود اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے حجر ِاسود کو بوسہ دے کر فرمایا :خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تجھے بوسہ دیتےہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہرگز بوسہ نہ دیتا۔

بھیجا ہے جنت سے تجھ کو خدا نے، چوما ہے تجھ کو میرے مصطفیٰ نے اےسنگِ اسود تیرا مقدر اللہ اکبر، اللہ اکبر