دعا کا لغوی معنی: عبادت، ندا ،تسمیہ، سوال،کلام، ترغیب اور
مدد طلبی کے ہیں۔ دعا کا اصطلاحی معنی اللہ پاک سے حاجت طلب کرنا ہے۔ شریعت میں
دعا کی بہت اہمیت ہے جس کا اندازہ قرآن و حدیث اور صحابہ و اولیا کی سیرت کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ اس مضمون
میں آپ کو میں قبولیتِ دعا کے مقامات بتاؤں گا۔ اس مضمون کی خصوصیت یہ ہے کہ عرفات
منی مزدلفہ ملتزم اور حجر اسود وغیرہ لوگ عموماً جانتے ہیں مگر اس مضمون میں آپ ان
مقامات کے علاوہ کچھ اور مقامات سنیں گے جن کے بارے میں آپ نہ جانتے ہوں ۔ تو آپ بغور
مطالعہ کیجیے۔
(1) جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں بھی دعا کرے۔ جس طرح
سیدنا زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہ پر فضل اعظم اور بے موسم میوے
انہیں ملتا دیکھ کر وہی اپنے لئے فرزند کی دعا کی۔ (2) اولیا و علما کی مجالس: حدیث قدسی میں ہے: یہ وہ لوگ ہیں کہ
ان کے پاس بیٹھنے والا بد بخت نہیں رہتا (3) ایسی مسجدیں جن کو سرکار صلی اللہ
علیہ وسلم سے شرف نسبت حاصل ہے۔ جیسے مسجد عمامہ، مسجد قبلتین وغیرہ۔ (4) وہ کنویں جنہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
طرف نسبت ہے۔ (5) وہ تمام مقامات جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری حیات میں
تشریف لے گئے۔ جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا باغ وغیرہ۔ (6) امام ابو
مسنٰی رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس (7) امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کے مزار
مبارک کے پاس ن(8) غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی کے مزار پاک پر (9) مزار حضرت سیدنا
معروف کرخی (10) حضرت خواجہ غریب نواز کا مزار مبارک (11) امام ابوبکر کاسانی اور
ان کے زوجہ حضرت فاطمہ رحمۃُ اللہِ علیہا
(12) حضرت محمد بن احمد قرشی (13)امام
اسہب اور ابن القاسم رحمھما اللہ کے مزاروں کےدرمیان کھڑے ہوکر 100 بار قل ھو اللہ
شریف پڑھے۔ (14) امام ابن لال محدث احمد بن
علی کے مزار کے پاس (15) تمام اولیا و صلحا و محبوبانِ خدا کے بارگاہ میں۔
اللہ پاک سے دعا ہے
کہ ہمیں ان مقامات کی بار بار باادب حاضری اور دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلّم
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا مانگنے کے تعلق سے قرآن مجید
اور احادیث مبارکہ میں کثیر مقامات پر ترغیب دلائی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن
پاک میں فرماتا ہے: اُجِیْبُ
دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ ترجَمۂ کنزُالعرفان: میں دعا کرنے
والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔(پ 2،البقرۃ:186)
دعا کا معنیٰ ہے اپنی حاجت پیش کرنا اور اِجابت یعنی قبولیت
کا معنیٰ یہ ہے کہ پروردگار اپنے بندے کی دعا پر ’’ لَبَّیْکَ
عَبْدِیْ‘‘ فرماتا ہے البتہ جو مانگا جائے اسی کاحاصل ہو جانا دوسری
چیز ہے۔ اللہ پاک کے کرم سے کبھی مانگی ہوئی چیز فوراً مل جاتی ہے اور کبھی کسی
حکمت کی وجہ سے تاخیر سے ملتی ہے۔ کبھی بندے کی حاجت دنیا میں پوری کردی جاتی ہے
اور کبھی آخرت میں ثواب ذخیرہ کردیا جاتا ہے اور کبھی بندے کا نفع کسی دوسری چیز میں
ہوتا ہے تو مانگی ہوئی چیز کی بجائے وہ دوسری عطا ہو جاتی ہے۔ کبھی بندہ محبوب ہوتا
ہے اس کی حاجت روائی میں اس لئے دیر کی جاتی ہے کہ وہ عرصہ تک دعا میں مشغول رہے۔
کبھی دعا کرنے والے میں صدق و اخلاص وغیرہ قبولیت کی شرائط نہیں ہوتیں اس لئے منہ
مانگی مراد نہیں ملتی۔ اسی لئے اللہ پاک کے نیک اور مقبول بندوں سے دعا کرائی جاتی
ہے تاکہ ان کی دعا کے صدقے گناہگاروں کی بگڑی بھی سنور جائے ۔(صراط الجنان،1/297)
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی اللہ پاک سے سوال نہ
کرے تو اللہ پاک اس پر غضب فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات،2-باب منہ، 5 / 244،
حدیث: 3384) ویسے تو حرمین شریفین میں ہر
جگہ انوار و تجلیات کی چھماچھم برسات ہو رہی ہوتی ہے تاہم بعض دعا قبول ہونے کے
مخصوص مقامات ہیں۔ چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تاکہ آپ ان مقامات پر مزید دلجمعی اور
توجہ کے ساتھ دعا کر سکیں۔
(1) مطاف(2) ملتزم ( رکنِ اسود اور باب کعبہ کے درمیانی
دیوار) (3) مُسْتَجار
(رکنِ شامی ویمانی کے درمیان مُحاذیٔ مُلتَزَم (ملتزم
کے سامنے والی دیوار میں )واقع ہے) (4) بیت اللہ شریف کی عمارت کے
اندر (5) میزاب رحمت کے نیچے (6)حطیم (7)حجر اسود (8) رکن یمانی (9) مقامی
ابراہیم کے پیچھے (10)زم زم کے کنویں کے قریب (11)صفا (12)مروہ (13) مَسْعٰی(جہاں دوران سعی مرد کو دورنا سنت ہے)(14) عرفات خصوصاً نزدِموقفِ
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (15) مُزدلِفہ،
خصوصاً مَشْعَرُ الْحَرَام(یعنی جبل قزح
)۔(رفیق الحرمین،ص67)
دعا کے بارے میں تفصیل جاننے کے لئے فیضان دعا کتاب کا
مطالعہ فرمائیں۔
علی رضا عطّاری(درجہ ثانیہ،جامعۃ المدینہ ڈیرہ
اللہ یار ، جعفر آباد،بلوچستان،پاکستان)
دعا ایک بہت ہی اہم امر ہے دعا کے ذریعے بندہ اللہ پاک کا
قرب پاتا ہے۔ حدیث پاک میں دعا کو عبادت کا مغز فرمایا گیا ،دعا ہی کے ذریعے بندے کی
مشکلات و پریشانیاں حل ہوتی ہے، دعا اللہ پاک کی عظیم الشان نعمت ہے ،ایک اور حدیث
پاک میں دعا کو مؤمن کا ہتھیار قرار دیا گیا مگر بعض لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ
ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی۔ آج میں آپ کو وہ پندرہ مقامات بتاتا ہوں کہ جہاں
دعائیں قبول ہوتی ہیں:
(1) مُلتزَم : یہ کعبۂ
معظمہ کی دیوارِ شرقی کے پارۂ جنوبی کا نام ہے ، جو درمیان درِ کعبہ وسنگِ اَسود
واقع ہے (2) زیرِ میزاب (3)
حطیم : کعبۂ معظمہ
کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل (یعنی باؤنڈری) کے
اندر کا حصہ (4) حجر اسود (5) صفا (6) مروہ (7) منیٰ (8) مسجد نبوی (9) مکانِ استجابتِ دعا، جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کریں (10) مسجد
قُبا شریف میں (11) جبلِ
اُحُد شریف(یعنی اُحُد پہاڑ)(12) حضور سیدنا غوث پاک کے مزار پر دعا قبول ہوتی ہے۔(13)
مزدلفہ (14) عرفات (15) نزد زم زم (یعنی چاہِ زم زم کے پاس )۔
یہ وہ مقامات ہیں جن کو اعلی حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کے والد
گرامی نے ”فضائل دعا“ کتاب میں لکھا ہے۔ اللہ پاک ہمیں ان مقامات کی حاضری نصیب
فرمائے اور وہاں پر رو رو کر دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ان ناقص
دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
سید زین العابدین (درجہ دورۃالحدیث،جامعۃ
المدینہ فیضان مدینہ کراچی،پاکستان)
دعا اللہ رب العزت سے مناجات کرنے اس کی قربت حاصل کرنے اس
کے فضل و انعام کے مستحق ہونے اور
بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان اور مجرب ذریعہ ہے۔ دعا کی اہمیت
کا اندازہ ہم اس آیت سے لگا لیتے ہیں خود رب کریم کا فرمان ہے: اُجِیْبُ دَعْوَةَ
الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ ترجَمۂ کنزُالایمان: دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے تو انہیں چاہیے میرا حکم مانیں ۔(پارہ2،البقرۃ:186)
(1)سرور ذیشان کی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان
ہے: الدعاء محجوب عن اللہ حتی
یصلی علی محمد و علی اٰل محمد ترجمہ: دعا اللہ پاک سے حجاب میں ہے یعنی دعا قبول
نہیں ہوتی جب تک محمد اور ان کی آل پر درود نہ بھیجا جائے۔(آداب دعا ،ص01)(2) سیدنا
عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے کہ امام المتوکلین سید القانعین رحمۃ اللعالمین کا فرمان دلنشین ہے: ان
للصائم عند فطرہ لدعوۃ مالرد۔ترجمہ بے شک روزہ دار کے لئے افطار کے وقت ایسی دعا ہوتی ہے
جو رد نہیں ہوتی ۔(الترغیب والترہیب، ج2، ص53، حدیث: 29)
(3)حضرت سیدنا ابو سعید خدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
اللہ پاک کے رسول کا فرمان عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک
سے اپنی حاجت کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے ۔(حلیۃ
الاولیا،ج7،ص299،حدیث:10591)
(4) رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: بندہ سجدے
کےحالت میں اپنے رب کریم سے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے اس لئے تم سجدے میں زیادہ دعا
کیا کرو۔( مسلم، ص198، حدیث: 1083)(5) فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ پاک سے اس کا فضل مانگو
کیونکہ مرغا فرشتے کو دیکھتا ہے۔(بخاری ،ج2 ،ص405، حدیث:3303)(6) سرکار مکہ مکرمہ
سردار مدینہ منورہ کا فرمان ہے:جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے اگر کوئی مسلمان اسے پا
کر اس وقت اللہ پاک سے کچھ مانگے تو اللہ
پاک اس کو ضرور دے گا وہ گھڑی مختصر ہے۔(صحیح
مسلم، ص424،حدیث:852)
(7) جب اذان دینے والا اذان دیتا ہے آسمان کے دروازے کھول
دیئے جاتے ہیں اور دعا قبول ہوتی ہے( المستدرک للحاکم،ج2،ص243،حدیث:2548)(8)کعبہ
شریف پر جب نظر پڑے تو جو بھی دعا مانگے گا قبول ہوگی۔( فضائل دعا،ص132)(9) صفا مروہ
کے درمیان کا راستہ خصوصاً جب سبز نشانوں
کے درمیان پہنچے کہ وہ بھی قبولیت دعا کا
مقام ہے ۔(فضائل دعا،ص132)(10) مواجہ شریف پر بھی دعا قبول ہوتی ہے امام ابن الجزری
فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں
ہوگی ۔(الحصن الحصین ،اماکن الاجابۃ ،ص31)
(11)حدیث میں فرمایا: زمزم لما شرب لہ،زم زم اس کے لئے ہے جس لئے پیا جائے یعنی جس نیت سے پیا جائے وہ حاصل ہوتی
ہے ۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب الحج،باب الشرب من زمزم،الحدیث:3562،جلد3،ص490)(12) عن اب
عمر رضی اللہ عنہا عن النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعاء الحس الیہ المحسن لایرد حضرت عبداللہ ابن عمر
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے کہ جس شخص پر کسی نے احسان کیا اس کی دعا
اپنے محسن کے حق میں رد نہیں ہوتی۔(کنزالعمال،ج2،ص98)(13) حضرت جابر رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: میں بدھ کے دن ظہر سے عصر کے درمیان دعا کرتا ہوں میری دعا قبول ہو
جاتی۔(مسند امام احمد بن حنبل، 5/187،حدیث:14569)
(14) حضرت امام زکریا قزوینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کئی احادیث مبارکہ ماہ رجب کی عظمت و شان پر دلالت کرتی ہیں کہ اس میں عبادتیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں۔(
عجائب المخلوقات ، ص 49)
(15)حضرت سیدنا ابوامامہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے : پانچ راتیں ایسی ہیں جس میں دعا رد نہیں ہوتی:(1)
رجب کی پہلی رات (2) شعبان کی پندرہویں رات(3) شب جمعہ (4) عید الفطر کی رات(5)عید
الاضحٰی کی رات ۔(تاریخ دمشق لابن عساکر ،
10/408)
ارشاد باری ہے: ترجمہ: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا
کرو میں قبول کروں گا۔( پارہ24، المؤمن 60)تفسیر اس آیت کی تفسیر اور لفظ کے بارے
میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا ہے اور معنی یہ ہوا کہ اے لوگو مجھ سے دعا
کرو میں اسے قبول کروں گا اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد عبادت ہے معنی یہ ہوا
کہ تم میری عبادت کرو میں تمہیں ثواب دوں
گا۔ (تفسیر کبیر جلد،13/350) دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر
بکثرت آیات کریمہ و احادیث طیبہ وارد ہے دعا کی نہایت عظمت ہے ایک حکمت یہ ہے کہ
دعا اللہ پاک سے ہماری محبت کے اظہار اس کی شان الوہیت کے حضور ہماری ابدیت کی
علامت، اس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اس کی ذات پاک
پر ہمارے ایمان و اقرار کا ثبوت ہے ۔
کہتے رہتے ہیں بندے ترے دعا
کے واسطے
کر دے پوری آرزو ہر بے کس و
مجبور کی
احادیث مبارکہ :رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ
کھول دیا گیا یعنی دعا مانگنے کی توفیق دے دی گئی اس کے لئے رحمت کے دروازہ کھول گئے دوسری روایت میں ہے کہ اس کے لئے جنت کے
دروازہ کھول دیے گئے (مصنف ابن ابی شیبہ) ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ پاک کے ہاں
دعا سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں ۔( جامع ترمذی شریف) ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ
تعالی اس شخص سے ناراض ہوتا ہے جو اس سے دعا نہیں مانگتا۔( مصنف ابن ابی شیبہ) ایک
اور حدیث میں ہے کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ سختیوں اور مصیبتوں کے وقت اس کی دعا
قبول ہو اسے خوشی آرام کی حالت میں کثرت سے دعا کرنی چاہئے۔(ترمذی) ایک اور حدیث
میں ہے کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے، دعادین کا ستون اور آسمان اور زمین کا نور ہے۔(
مصنف ابن شیبہ )دعا بڑے طوفان کا رخ موڑ
دیتی ہیں۔
کیوں کہیں ہم یہ عطا ہو وہ
عطا ہو
وہ عطا کر دیجئے جس میں ہم سب کا بھلا ہو
حکایت شیخ
سعدی رحمۃُ اللہِ علیہ: ایک شب بیدار بزرگ ساری رات عبادت کرتا رہے اور صبح کو دعا
کرنے لگے، جب وہ دعا مانگ رہا تھے ، غیب سے آواز آئی تیری دعا اور عبادت قبول نہیں
ہے۔اب تیری مرضی ہے کہ عبادت کرتا رہ یا چھوڑ کر کہیں چلا جا، وہ صابر اور شاگرد
تھا اگلی رات پھر عبادت میں لگا رہا اس کے ایک مرید نے بات کی جو ایک دن پہلے ہی
آواز سن چکا تھا، اتنی تکلیف کیوں اٹھاتے ہو? چھوڑ دو کوئی اور دھندا کریں ،مرید کی یہ واہیات بات سن کر وہ بزرگ اتنا روئے کہ خون کے آنسوؤں سے رخسار تر ہو گئے پھر حسرت
سے کہنے لگا لڑکے اگر اس سے منہ موڑ لیا ہے تو یہ نہ سمجھ کہ میں اس سے منہ موڑوں
گا !اس ذات کے لئے میرے جیسے لاکھوں عبادت
گزار ہیں مگر میرے لئے کوئی اور خدا نہیں ہے پھر میں اسے چھوڑ کر جاؤں تو کہاں
جاؤں ؟ اگرسوالی کو کسی دوسرے در سے کچھ مل سکتا ہو تو وہ پہلا دروازہ چھوڑ سکتا،
مشکل تو یہ ہے کہ اس درد کے سوا کوئی دوسرا دروازہ بھی تو نہیں جہاں اس محروموں کو
خیرات مل سکے ۔وہ بزرگ سجدے میں سر رکھ کر رو رہے تھے کہ غیبی آواز دوبارہ آئی :اگرچہ
تیری دعا اور عبادت میں کوئی کمال نہیں تاہم اس لئے تیری عبادت اور دعا کو قبول کیا جاتا ہے کہ تیرے لئے ہمارے سوا کوئی جائے
پناہ بھی نہیں ۔
یہ
پیاری دعا حفظ کر ہی لیں: حضرت معاذ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور
فرمایا :اے معاذ خدا کی قسم میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں ہر نماز کے بعد یہ الفاظ پڑھنا نہ چھوڑنا :اللہم
اعنی علی ذکرک و شکرک وحسن عبادتک۔مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے:حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا تین قسم کی دعائیں مستجاب ہیں ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں(1)
مظلوم کی دعا(2) مسافر کی دعا (3)باپ کی
اپنے بیٹے کے لئے دعا اور بد دعا۔
حرمین شریفین کی واپسی پر رخصت ہو رہا ہو تو اس سے اپنے لئے
دعا کہنا سنت ہے۔
دعا کے قبولیت کے مقامات :حضرت حسن بصری رحمۃاللہ علیہ نے مکہ والوں کو ایک خط میں
لکھا کہ مکہ مکرمہ میں پندرہ مقامات پر دعا قبول ہوتی ہے۔(1) پہلی نظر جب کعبۃ اللہ شریف پر پڑھے جو جائز دعا ہو قبول
ہوگی (2)طواف کرتے ہوئے(3)حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان جگہ جو جگہ
ہے(4) کعبہ شریف کی چھت کا پر نالہ رحمت کا اس کے نیچے نمبر(5)کعبہ شریف کے اندر(6)آب
زم زم کے پاس بھی اور پیتے وقت بھی (7) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے(8) مقام ا برہیم کے پاس (9) میدان عرفات میں۔
(10) مزدلفہ (11)منیٰ میں(12) تینوں شیطانوں والے پلر کے
پاس جہاں کنکریاں مارتے ہیں ۔نوٹ: اس کے علاوہ ازیں اور تین مقامات میں بھی دعا
قبول ہوتی ہے جیسا کہ(13) میت کے آنکھیں
بند کرتے وقت(14) ایک جمعرات سے دوسری
جمعرات کے درمیان مکمل قرآن پاک ختم کرنا اور آخری پارہ کے مکمل ہوتے ہی(15) پاکستان کے ضلع بہاولپور میں موجود چولستان قلعہ
ڈیراور کے شاہی قبرستان کی مسجد میں جائے کوئی مراد ہو پوری نہ ہوتی ہو وہاں جائے
اور شاہی قبرستان کی مسجد میں جائے وہاں دو رکعت نماز پڑھے اس کے بعد ایک تسبیح
آیت الکرسی کی پڑھے اگر آیت الکرسی نہ آتی
ہو تو ایک تسبیح درود شریف کی پڑھ لے. ایک تسبیح سے مراد سو دانے پڑھے. ان شاءاللہ
مرادیں پوری ہوں گی۔آج تک وہاں جا کر جس نے یہ نفل پڑھ لی کبھی ناکام نہیں لوٹا۔
نوٹ :مسجد کی
قبولیت دعا اور مرادیں پوری ہونے کی وجہ یہاں سال ہا سال بڑے بڑے اولیا صلحااور
بڑی بڑی ہستیوں نے ذکر، اعمال ،تسبیحات اور چِلّے کئےہیں جن کی برکات آج بھی موجود ہیں نیز یہاں چار مقرب صحابہ
کرام کے مزار بھی ہیں جن کا نام مبارک یہ ہے:(1) حضرت جوار رضی اللہ عنہ (2) حضرت جواد رضی اللہ عنہ(3) حضرت طیب رضی اللہ
عنہ (4) حضرت طاہر رضی اللہ عنہ۔ان کے
مزارات کے پاس بھی دعائیں قبول ہوتیں ہیں۔
دعا اللہ رب العزت سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے،
اس کے فضل و انعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت
آسان اور مجرب ذریعہ ہے۔ دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا
نور ہے ۔ دعا عبادت کا مغز ہے ۔ دعا اللہ رب العزت کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے ۔
دعا اللہ رب العزت کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی متوارث سنت، اس کے نیک بندوں کی متواتر عادت
اور گناہگار بندوں کے حق میں ایک بہت بڑی نعمت و سعادت ہے ۔
اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: ادْعُوْنِیْۤ
اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ
سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰) ترجَمۂ
کنزُالایمان:اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا بےشک وہ جو
میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں
جائیں گے ذلیل ہوکر۔(پ24،المؤمن:60)
یہاں عبادت سے مراد دعا ہے ۔ اس آیت سے معلوم
ہوا کہ اللہ رب العزت سے دعا مانگنی چاہیے۔ کیونکہ دعا نہ کرنے والوں پر اللہ رب
العزت غضب فرماتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جو آدمی اللہ تعالی سے سوال نہ کرے تو اللہ تعالی اس پر غضب فرماتا ہے ۔
اللہ رب العزت قرآن پاک
میں ارشاد فرماتا ہے: اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا
دَعَانِۙ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ ترجَمۂ
کنزُالایمان: دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارےتو انہیں چاہیے میرا حکم مانیں۔(پ2،البقرۃ:186)
اللہ رب العزت کے کرم سے کبھی مانگی ہوئی چیز فوراً مل جاتی
ہے اور کبھی کسی حکمت کی وجہ سے تاخیر سے ملتی ہے۔ کبھی دعا کرنے والے میں صدق و
اخلاص کی کمی کی وجہ سے منہ مانگی مراد نہیں ملتی۔ جس طرح اللہ رب العزت کے نیک
اور مقبول بندوں کی دعا قبول ہوتی ہے اسی طرح چند مقامات ایسے ہیں جہاں دعا قبول
ہوتی ہے۔ ان میں سے 15 مقامات اجابت یہ ہیں: (1)مطاف (یہ وسط مسجد الحرام میں ایک
گول قطعہ ہے جہاں طواف کرتے ہیں)(2)بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر(3)زیر میزاب
(سونے کےپرنالے کے نیچے)(4)رکن یمانی (5) مقام ابراہیم کے پیچھے(6)آب زمزم کے کنویں
کے پاس(7)صفا و مروہ اور مقام سعی(8) عرفات(9)منٰی(10)منبر اطہر کے پاس(11)مسجد
قبا شریف(12)جبل احد(13)مزار امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ (امام شافعی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ یہ دعا کے قبول ہونے میں تجربہ شدہ عمل ہے)(14)مزار سیدنا غوث
اعظم رضی اللہ عنہ(15)مزار سیدنا معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ ( علامہ زرقانی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہاں اجابت مجرب ہے۔کہتے ہیں کہ100 بار سورۂ اخلاص وہاں پڑھ کر جو چاہے اللہ رب العزت سے
مانگے، حاجت پوری ہو۔
مزید قبولیت دعا کے مقامات، اوقات اور قبولیت دعا کی شرائط
کے بارے میں جاننے کے لئے کتاب ”فضائل دعا
“کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں دونوں جہان کی بھلائیاں
نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
حضور سید کائنات شاہ موجودات صلى الله علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ الدعاء مخ العبادة ( یعنی دعا عبادت کا مغز ہے ) ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا
کہ الدعاء سلاح المؤمن و عماد
الدين و نور السموات والأرض (یعنی دعا مومن
کا ہتھیار ،دین کا ستون اور آسمان اور زمین کا نور ہے)۔دعا کی اہمیت کو ہر مسلمان
جانتا ہے کہ ہم کو کس انداز سے اور کس طرح دعا مانگنی چاہئے۔دعا کے ذریعے بندہ
اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی حاجتیں اور ضرورتیں پیش کرتا ہے۔اور دعا کے دوران گویا
بندہ اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم عاجزی اور انکساری سے دعا مانگیں
اور ہمیشہ خیر ہی کی التجاء کرنی چاہیے۔
آپ کے دلوں میں دعا کے شوق و ذوق کو دوبالا کرنے کے لئے
پندرہ ایسے اوقات جن میں آپ دعا مانگے گےتو ان شاء اللہ الکریم اللہ پاک کی رحمت
سے آپ کی دعا قبول ہوگی:(1) شب قدر کی رات(2)یوم عرفات (یعنی نو ذوالحجۃ)(3) رمضان
المبارک کے مہینے میں(4)جمعہ کی رات اور جمعے کے دن(5) مسجد کی طرف جاتے
وقت(6)اذان کے وقت(7)تکبیر کے وقت(8)اذان و اقامت کے درمیان(9)پانچوں فرض نمازوں
کے بعد(10)سجدے میں(11) تلاوتِ قرآن کے بعد(12)آب زمزم پینے کے بعد(13) روزا افطار
کرنے کے وقت(14) اللہ پاک اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذکر کی مجلس
میں (15)اور جمعے کے دن مغرب کی نماز سے
کچھ وقت پہلے۔
دعا کے بارے میں ارشاد ربانی ہے " ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ
لَكُمْؕ- " ترجمہ کنزالایمان : مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا ۔
اس آیت میں لفظ "ادعونی" کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا
ہے معنی یہ ہوا اے لوگو تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا (تفسیر کبیر:ج.9ص.567)دعا
مانگنا عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے دعا کی عظمت وشان کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ دعا نہ مانگنے والے کے بارے میں کہ اللہ تعالی اس پر غضب فرماتا ہے جیسا
کہ حدیث پاک میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس شخص نے اللہ تعالی سے سوال نہ کیا اللہ تعالی
اس پر غضب فرماتا ہے ۔ ( ترمذی.باب ماجاء فی فضل الدعاء ج5، ص387 ،حدیث :3373)اور
کبھی دعا کی قبولیت اس مقام کی وجہ سے بھی ہوتی ہے جہاں پر دعا کی جائے ۔
آیئے جانتے ہیں بزرگان دین سے منقول قبولیت دعا کے 15
مقامات:
(1)داخل بیت اللہ شریف (بیت اللہ کی عمارت کے اندر) (2) زیر
میزاب:امیر اہلسنت فرماتے ہیں میزاب
رحمت سونے کا پرنالہ ہے ہے یہ رکن عراقی و شمالی کی چھت پر نصب ہے ہے اس سے بارش
کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے (رفیق الحرمین ،ص 61)(3)حطیم: کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی
شکل میں فصیل یعنی باؤنڈری کے اندر کا حصہ ،حطیم کعبۃ اللہ کا حصہ ہے ہے
اس میں داخل ہونا عین کعبۃ اللہ میں داخل ہونا ہے(رفیق الحرمین ،ص61)(4)ملتزم: رکن اسود اور باب کعبہ کی درمیانی دیوار
(فضائل الدعا، ص 128)(5)حجر اسود (یہ جنتی پتھر ہے جو کعبۃ اللہ کے جنوب میں مشرقی
کونے میں واقع رکن اسود میں نصب ہے مسلمان اسے چومتے اور اس استلام کرکے اپنے گناہ دھلواتے ہیں۔
دھو چکا ظلمتِ دل بوسۂ سنگ اسود
خاکے بوسی مدینے کا بھی رتبہ
دیکھو
(حدائق بخشش ، ص65)
(6)مقام ابراہیم علیہ السلام ۔(فضائل الدعا ،ص131)(7)آب
زمزم کے پاس (حصن حصین ،ص 35) (8)مسجد نبوی علیہ الصلوۃ والسلام (فضائل الدعا ،ص 133) (9)منٰی( فضائل الدعا
،ص 132) (10)مزدلفہ ۔ خصوصا جبل قزح کے پاس (فضائل الدعا ،ص 132) (11) نظر گاہ
کعبہ : جہاں کہیں سے بھی کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقام قبولیت ہے ۔(فضائل
الدعا ،ص 132) (12)عرفات: خصوصاً موقف نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ( فضائل
الدعا ،ص 132) (13)صفا اور مروہ (حصن حصین، ص 35)
(14)بزرگان دین کے مزارات
کے پاس : بلکہ بزرگوں کے پاس دعا مانگنا سنت انبیا علیہم السلام ہے ۔زکریا علیہ
السلام نے بی بی مریم کے پاس کھڑے ہوکر اولاد کی دعا کی: هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ
هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب میرے
مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا۔ (پارہ ، 3،آل عمران:38)اولیا
اللہ رحمت رب کے اسٹیشن (مراکز ) ہیں یہاں سے رحمت ملتی ہے ۔(تفسیر نعیمی ج.2
ص234)(15)مواجھہ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔امام ابن جزری فرماتے ہیں
دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کھاں ہوگی۔(حصن حصین ،ص 35)
دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ اللہ پاک نے اپنے
بندوں کو عطا فرمائی اور ان کو تعلیم کی،مشکلات کے حل میں اس سے زیادہ کوئی چیز
مؤثر نہیں اور بلا و آفت کے دفع میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں، اللہ تعالی قرآن
مجید میں ارشاد فرماتا ہے:اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا
دَعَانِۙ-ترجمہ: میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ
مجھے پکارے۔(پ ۲، البقرة ۱۸۶)ایک اور مقام پر
فرمایا: ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-ترجمہ: مجھ سے
دعا مانگو میں قبول فرماوں گا۔(پ ۲۴، المؤمن ۶۰)
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں اپنے
بندے کے گمان کے پاس ہوں ( یعنی وہ جیسا گمان مجھ سے رکھتا ہے میں اس سے ویسا ہی کرتا
ہوں)، ” اور “ میں اس کیساتھ ہوں جب وہ
مجھ سے دعا کرے۔( صحیح مسلم، حدیث 2675، ص 1442)
اللہ پاک کا علم و قدرت کے ساتھ ہونا تو ہر شے کیلئے ہے، یہ
خاص معیتِ کرم و رحمت ہے، جو دعا کرنے والے کو ملتی ہے، اس سے زیادہ کیا دولت و
نعمت ہو گی کہ بندہ اپنے مولیٰ کی معیت (ساتھ) سے مشرف ہو، ہزار حاجت روائیاں اس
پر نثار اور لاکھ مقصد و مراد اس کے تصدُّق۔بندہ اپنے پروردگار سے جب چاہے جس جگہ
چاہے دعا و فریاد کر سکتا ہے کوئی خاص جگہ
اس مقصد کے لئے مقرر نہیں تاہم ہم ان 15 مقامات کو ذکر
کرتے ہیں کہ جن میں قبولیتِ دعا کی امید بحمداللہ قوی ہے:(1)مطاف(2)ملتزم ( وہ جگہ
جو جو حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے)(3)میزابِ رحمت(4)رکنِ یمانی
( خصوصا ًجبکہ طواف کرتے وہاں سے گزر ہو) (5)حطیمِ کعبہ(6)حجرِ اسود(7)صفا و مروہ(8)عرفات
(خصوصا نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جائے وقوف پر)(9)مزدلفہ (خصوصا جبل قزح پر)(10)مسجدِ
نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (11)مواجہہ شریفہ حضور سید الشافعین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (12)منبر اطہر کے پاس(13)مسجد قبا شریف(14)جبل احد شریف(15)اولیا
و علما کی مجالس میں۔
اسی طرح بندہ اپنے پروردگار سے دن یا رات کے کسی بھی حصے میں
دعا مانگ سکتا ہے، اس کیلئے کسی مخصوص وقت کی قید نہیں، البتہ احادیثِ مبارکہ سے
دعا کے لئے درج ذیل خاص اوقات ثابت ہیں: (1)شبِ قدر(2)یومِ عرفہ ( اس دن کی دعا سب
سے افضل ہے)(3)آدھی رات کہ اس وقت خاص تجلی ہوتی ہے(4)ساعتِ جمعہ یعنی جمعہ کے دن
مغرب سے ذرا پہلے(5)بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان(6)پنجگانہ فرضوں کے بعد(7)سجدے
میں(8)تلاوتِ قرآنِ مجید کے بعد(9)آبِ زمزم پی کر(10)بارش برستے وقت(11)مسلمانوں
کے مجمع میں(12)ذکرِ خدا و رسول کی مجلس میں(13)افطار کے وقت(14)شبِ برات(15)عید
الفظر و عید الاضحیٰ کی رات
اللہ تعالیٰ ہمیں دعا کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے، قبولیتِ
دعا کے کامل یقین کے ساتھ، ان مقامات و اوقات میں خوب دعائیں مانگنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔
بفضل خدا
تعالیٰ فقیر یہ تحریر قلم بند کرتا ہے انکے لئے جو جاننے والے ہیں تاکہ وہ اس کو
واضح طور پر پہنچائیں ان تک جو کم جاننے والے ہیں تمام قارئین کرام سے بندہ ناچیز
کی التجا ہے کہ اگر اس میں کوئی بھلائی دیکھیں تو میرے رب جلیل القدر کی عطا کردہ
توفیق پر محمول فرمائیں اور اگر خطا نظر آئے تو وہ میری کم علمی سمجھ کر مجھ طالب
علم کی اصلاح فرمائیں۔
ایک حضرت صاحب نے
حکم فرمایا کہ دعا قبول ہونے کہ مقامات پر کچھ الفاظ کو زینت قرطاس بخشیں تاکہ ماہ
نامہ فیضان مدینہ میں شائع کیا جائے کلام کی ابتدا سے پہلے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ
حق لکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور اس کو میرے والدین پیرومرشد عزیز و اقارب اور
میرے لئے ذریعہ نجات بنائے مزید یہ کہ رب العالمین ہر اس شخص کے حق میں یہ دعا
قبول فرمائے جس نے اس کار خیر میں ہماری کسی طرح بھی امداد کی آمین ثم آمین بجاہ
خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم
امابعد بغیر کسی
تمہید کہ دعا کے متعلق کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ قارئین کرام کی نظر کرتا ہوں۔قرآن مجید
میں دعا کہ متعلق حکم: اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا
دَعَانِۙ-یعنی میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہو جب وہ مجھے پکارے۔ ( سورۃ البقرہ:186)ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- (سورۃ المؤمن:60)"مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا"دعا کہ متعلق
بہت سی احادیث مبارکہ ہیں لیکن اس مختصر میں تمام کی گنجائش نہیں تین احادیث درج ذیل
ہیں:
(1)رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم
فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے"میں اپنے بندے کے گمان کے پاس
ہوں" یعنی جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے میں اس سے ویسا ہی کرتا ہوں۔"(وأنا
معه إذا دعاني) اور میں اس کے ساتھ ہوں جب مجھ سے دعا کرے ۔ ("تیسر
مصطلح الحدیث الباب الأول،الفصل الرابع،ص126)یہ حدیث پاک بخاری ومسلم و ترمذی و
نسائی و ابن ماجہ نے ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت کی ہے۔(صحیح مسلم،کتاب الذکر و الدعاء...إلخ،باب
فضل الذكر والدعا...إلخ،الحديث:2675،ص1442)
(2)رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے
بزرگ تر نہیں۔(سنن ترمذی،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی فضل الدعاء،5/243 ،حدیث: 3381)اس
حدیث پاک کو ترمذی و ابنِ ماجہ و ابنِ حبان و حاکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ
عنہ سے روایت کیا۔
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ارشاد
فرماتے ہیں :جو اللہ پاک سے دعا نہ کرے، اللہ پاک اس پر غضب فرمائے۔ أخرجه
أحمد و ابن ابي شيبة و البخاري في”الأداب المفرد“ و
الترمذي وابن ماجه و الحاكم عن أبي هريرة رضي الله عنه ،اور یہ معنی بعض احادیث قدسی میں بھی آئے ہیں۔أخرجه العسكري
في”المواعظ“ عنه عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم
قال: قال الله تعالى ”من لا يدعوني أغضب عليه“یعنی جو مجھ سے دعا نہ کرے گا میں اس پر غضب فرماؤں گا۔
العياذ بالله تعالى۔
امکنۂ اجابت درج ذیل ہے:(1)مطاف:(یہ وسط مسجد الحرام شریف
میں ایک گول قطعہ ہے،سنگ مرمرسے مفروش ہے اس کے بیچ میں کعبۂ معظمہ ہے یہاں طواف
کرتے ہیں ،زمانہ اقدس میں مسجد اسی قدر تھی( یہ بات مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب "جواہر البیان فی أسرار الأرکان"،فصل چہارم،ص۱۷۵و۱۹۳میں بطور افادہ بیان
فرمائی)۔ (2)ملتزم:یہ وہ مقام ہے جو کعبۃ اللہ تعالیٰ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی
حصے میں حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان واقع ہے یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ
کر دعائیں مانگتے ہیں۔(3)مستجار:(یہ وہ مقام ہے جو کعبۃ اللہ شریف کی مغربی دیوار
کے جنوبی حصہ میں رکن یمانی اور درمسدود کے درمیان واقع ہے)۔ (4)داخل بیت اللہ شریف:(بیت
اللہ شریف کی عمارت کے اندر)
(5)خلف ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام:(مقام ابراہیم علیہ
السلام کے پیچھے) (6)نزد زمزم:(زمزم کے کنویں کے پاس)رکن یمانی:(یہ یمن کی جانب
مغربی کونہ ہے) (7)حجر اسود:(یہ پتھر کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع
رکن اسود میں نصب ہے)۔(8)مسجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم (9)مکان استجابت دعا : جہاں ایک مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کریں۔(10)صفا
(11)مروہ(12)مسعیٰ:(یہ صفا و مروہ کے درمیان کا راستہ ہے) خصوصاً دونوں میل سبز کے
درمیان(12)عرفات: خصوصاً نزد موقف نبی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم(13)مزدلفہ:
خصوصاً مشعر الحرام یعنی جبل قزح۔(14)منی (15)جمرات ثلاثہ: منی اور مکہ مکرمہ کے
درمیان میں تین ستون ہیں انکو جمرہ کہتے ہیں پہلا منیٰ سے قریب جمرہ اولی کہلاتا
ہے اور بیچ کا جمرہ وسطی اور اخیر کا مکہ معظمہ سے قریب ہے جمرۃ العقبہ۔(16)منبر
اطہر کے قریب ۔(17)مسجد اقدس کے ستونوں کے نزدیک ۔
(18)مسجد قباء شریف میں۔(19)مسجد الفتح میں ،خصوصا روز چہار
شنبہ بین الظہر و العصر یعنی بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان ۔(20)تمام مساجد جن
کو سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے شرف نسبت حاصل ہے جیسے مسجد غمامہ،مسجد
قبلتین وغیرہ۔(21)وہ تمام مقامات جنہیں حضور پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
واصحابہ وبارک وسلم کی طرف نسبت ہے۔(22)مزار مبارک امام موسیٰ کاظم رضی اللہُ عنہ۔(23)تربت
پاک سراپہ برکت سیدنا غوث الاعظم رضی اللہُ عنہ۔(24)مزار فائض الانوار سیدنا معروف
کرخی رحمۃ اللہ علیہ ۔(25)خواجہ غریب نواز ،امام ابوبکرمسعود کاشانی اور انکی زوجہ
مطہرہ ،حضرت ابو عبداللہ محمد بن احمد قریشی اور ابن رسلان رضی اللہ عنھم کے
مزارات ۔(26)اسی طرح تمام اولیائےکرام و صلحا و محبوبان خدا کی بارگاہیں اور
خانقاہی آرام گاہیں۔
یہ تمام مقامات رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃ
اللہ علیہ نے اپنی کتاب" أحسن
القراء الآداب الدعاء و ذیل المدعاء لأحسن القراء" میں بھی درج فرمائیں ہیں۔
نفعنا الله تعالى ببركاتهم في الدنيا والآخرة
أمين
محمد اسماعیل عطّاری(درجہ خامسہ جامعۃُالمدینہ فیضان بخاری کراچی،پاکستان)
دعا اللہ پاک سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے، اس کے
فضل و انعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان
اور مجرب ذریعہ ہے۔
دعا کی اہمیت اور وقعت کا اندازہ خود قرآن پاک میں اللہ پاک
کے ارشاد (ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ) (پ 24، المؤمن:60)فرمانے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے پیدا ہوتے ہی اپنی امت کے حق ميں (ربّ هب لي
امتي)(الكلام الاوضح في تفسير سوره الم نشرح "موسم
به" انوار جمال مصطفى" ص 104) فرمانے، روزٍ محشر بھی (انا
لها)(صحيح البخاري كتاب التوحيد باب كلام الرب،4/577، حديث:751)
پکارنے پھر بارگاہِ رب العزت میں سربسجود رہ کر امت کی شفاعت فرما کر بخشوانے اور
احادیث میں بار بار ترغیب دلانے اور نہ مانگنے کی صورت میں ربِ جلیل کا نہایت سخت
حکم: (من لا يدعوني أغضب عليه)(کنز العمال،1/29، حدیث :3124) سنانے سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
قبولیتِ دعا کے کثیر اور مختلف مقامات ہے ان میں سے 15
مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے:
(1) ملتزم (یہ وہ
مقام ہے جو کعبۃ اللہ کی دیوار کے جنوبی حصے میں حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان
واقع ہے یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعا مانگتے ہیں)۔ (2)داخلِ بیت (بیت
اللہ شریف کی عمارت کے اندر)۔ (3) زیرِ میزاب (سونے کا پرنالہ یہ رکن عراقی اور
شامی کی شمالی دیوار پر چھت پر نصب ہے اس سے بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا
ہے)۔(4)حطیم (کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں باؤنڈری کے
اندر کا حصہ)۔ (5) حجر اسود۔(6) رکن یمانی (یہ یمن کی جانب مغربی کون ہے)۔(7) مقام
ابراہیم کے پیچھے۔(8) چاہِ زم زم کے پاس۔(9) منٰی۔(10) مسجدِ قبا شریف میں۔(11)
جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقامِ مقبولیت ہے۔(12) مزدلفہ خصوصاً
مشعرالحرام(یعنی جبل قزح)۔(13) صفا۔(14) مروہ۔(15) مکانِ استجابتِ دعا (جہاں ایک
مرتبہ دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کرے)۔ فضائلِ دعا )
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مذکورہ مقامات کی زیارت کرنے کے
سعادت عطا فرمائے اور ان مقامات پر دعا مانگنے کی سعادت اور توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلّم
طلحہ خان عطّاری (درجہ ثالثہ،جامعۃ المدینۃ فیضان
خلفا ئے راشدین ، راولپنڈی ،پاکستان)
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ
لَكُمْؕ-، ترجمہ کنزالعرفان: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا
کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔(پ 24، المؤمن:60)
دعا اللہ پاک سے دنیا و آخرت کی تمام تر بھلائی طلب کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جس کا
حکم اللہ پاک خود فرما رہا ہے کہ اے میرے بندوں ! تم مجھ سے دعا مانگو۔ اور جو دعا
نہیں مانگتا تو اس سے ناراضگی فرماتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جو آدمی اللہ پاک سے سوال نہ کرے تو اللہ پاک اس پر غضب فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب
الدعوات،2-باب منہ، 5 / 244، حدیث: 3384)
بندہ اپنے رب کریم کے حکم کو بجا لاتے ہوئے دعا مانگتا ہے ،
لیکن اس دعا کے بدلے اسے کیا ملتا ہے ؟ چند احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ : دن رات اللہ
پاک سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے۔(مسند ابی یعلٰی، مسند
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، 2 / 201، حدیث: 1806) دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے
ہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار۔
الخ، 5 / 318، الحدیث: 3551) دعا اللہ پاک کی بارگاہ میں قدر و منزلت حاصل
کرنے کا ذریعہ ہے۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، 3 / 288، حدیث: 8756)
یہ چند وہ فضائل ہیں جو دعا مانگنے والے کو حاصل ہوتیں ہیں۔
جس طرح ہر کام کی کچھ شرائط و طریقے ہوتے ہیں اسی طرح دعا مانگنے کی بھی کچھ شرائط
ہیں جن کا خلاصہ ہے:(1) دعا مانگنے میں اخلاص ہو ۔(2) دعا مانگتے وقت دل دعا کے
علاوہ کسی اور چیز کی طرف مشغول نہ ہو ۔(3) جو دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل
نہ ہو جو شرعی طور پر ممنوع ہو ۔(4) دعا مانگنے والا اللہ پاک کی رحمت پر یقین
رکھتا ہو۔(5) اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تو وہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی
لیکن وہ قبول نہ ہوئی ۔ (خزائن العرفان ، المؤمن ، تحت الآیۃ : 60، ص 873 ، ملخصاً)
اسی طرح کچھ خاص مقامات بھی ہیں جہاں مانگی ہوئی دعا جلدی
قبول ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔ جن میں سرِ فہرست حریمین شریفین ہیں ۔ ویسے تو ان
دونوں پاکیزہ شہروں کے ہر حصے پر اللہ پاک کی کڑوڑ ہا کڑوڑ رحمتوں اور برکتوں کی
تجلیات و بارش کا نزول ہو رہا ہے ۔ لیکن چند مقامات اخص الخاص (خاص سے بھی زیادہ
خاص) ہیں۔ ان دو پاکیزہ شہروں کے اور انکے
علاوہ قبولیتِ دعا کے مقامات میں سے 15 مقامات ذکر کیے جاتے ہیں:
(1)بیتُ اللہ کے اَندر (2)میزابِ رَحمت کے نیچے
(3)حَجرِاَسوَد (4)مَقامِ اِبراہیم کے پیچھے (5)زَم زَم کے کنویں کے قریب
(6)مسجدِنبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (7)مُواجَھَہ شریف، اِمام اِبنُ الجزری رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں:دُعا یہاں قَبول نہ ہوگی تو کہاں قَبول ہوگی(حصن حصین، ص31) (8)منْبرِاطہر کے
پاس (9)مسجدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سُتونوں کے نزدیک (10)باقی مساجدِ طیِّبہ جن کو
سرکارِمدینہ، سُکونِ قلب وسینہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت ہے (مَثَلاً مسجدِغَمامہ، مسجدِ قِبْلَتَین وغیرہ
وغیرہ ) (11)وہ مُبارَک کُنویں جنہیں سَروَرِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت ہو (12)جَبَل اُحُد
(13)مزاراتِ بقیع (14)مزارِ مطہّر ابو حنیفہ رحمۃُ
اللہِ علیہ کے پاس (15)اسی طرح تمام اولیا و صلحامحبوبانِ خدا کی بارگاہیں،
خانقاہیں آرام گاہیں۔(اَحْسَنُ الْوِعَاء لآدابِ الدُّعاء ، فصل چہارم)
دعا مانگنے کی تمام شرائط و
ضوابط کا خیال رکھنے اور مخصوص اوقات و مقامات پر دعا مانگنے کے باوجود لازم نہیں
ہے کہ کی گئی فریاد پوری ہو بلکہ بعض اوقات اس دعا کے بدلے کچھ اور مل جاتا ہے جیسا
کہ اس حدیثِ مبارکہ میں ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے تاجدارِ
رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : بندہ اپنے رب سے جو بھی دعا مانگتا ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے ،
(اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یا تو اس کی مانگی ہوئی مراد دنیا ہی میں اس کو
جلد دیدی جاتی ہے ، یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا دعا کے مطابق اس کے گناہوں
کا کفارہ کر دیا جاتا ہے۔ ( ترمذی، احادیث
شتّی، 135-باب، 5 / 347،حدیث: 3618)
لہذا جب بھی دعا مانگی جائے تو نتیجہ میں جلدی نہ کی جائے بلکہ
صبر و تحمل سے کام لیا جائے کہ جو خالقِ باری کو ہمارے حق میں بہتر منظور ہوگا، وہی
فیصلہ فرمائے گا ۔
اللہ پاک ہمیں کثرت
کے ساتھ اخلاص والی دعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم