وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-، ترجمہ کنزالعرفان: اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔(پ 24، المؤمن:60) دعا اللہ پاک سے دنیا و آخرت کی تمام تر بھلائی طلب کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جس کا حکم اللہ پاک خود فرما رہا ہے کہ اے میرے بندوں ! تم مجھ سے دعا مانگو۔ اور جو دعا نہیں مانگتا تو اس سے ناراضگی فرماتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی اللہ پاک سے سوال نہ کرے تو اللہ پاک اس پر غضب فرماتا ہے۔( ترمذی، کتاب الدعوات،2-باب منہ، 5 / 244، حدیث: 3384)

بندہ اپنے رب کریم کے حکم کو بجا لاتے ہوئے دعا مانگتا ہے ، لیکن اس دعا کے بدلے اسے کیا ملتا ہے ؟ چند احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ : دن رات اللہ پاک سے دعا مانگنا دشمن سے نجات اور رزق وسیع ہونے کا ذریعہ ہے۔(مسند ابی یعلٰی، مسند جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، 2 / 201، حدیث: 1806) دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ والاستغفار۔ الخ، 5 / 318، الحدیث: 3551) دعا اللہ پاک کی بارگاہ میں قدر و منزلت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔( مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، 3 / 288، حدیث: 8756)

یہ چند وہ فضائل ہیں جو دعا مانگنے والے کو حاصل ہوتیں ہیں۔ جس طرح ہر کام کی کچھ شرائط و طریقے ہوتے ہیں اسی طرح دعا مانگنے کی بھی کچھ شرائط ہیں جن کا خلاصہ ہے:(1) دعا مانگنے میں اخلاص ہو ۔(2) دعا مانگتے وقت دل دعا کے علاوہ کسی اور چیز کی طرف مشغول نہ ہو ۔(3) جو دعا مانگی وہ کسی ایسی چیز پر مشتمل نہ ہو جو شرعی طور پر ممنوع ہو ۔(4) دعا مانگنے والا اللہ پاک کی رحمت پر یقین رکھتا ہو۔(5) اگر دعا کی قبولیت ظاہر نہ ہو تو وہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی لیکن وہ قبول نہ ہوئی ۔ (خزائن العرفان ، المؤمن ، تحت الآیۃ : 60، ص 873 ، ملخصاً)

اسی طرح کچھ خاص مقامات بھی ہیں جہاں مانگی ہوئی دعا جلدی قبول ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔ جن میں سرِ فہرست حریمین شریفین ہیں ۔ ویسے تو ان دونوں پاکیزہ شہروں کے ہر حصے پر اللہ پاک کی کڑوڑ ہا کڑوڑ رحمتوں اور برکتوں کی تجلیات و بارش کا نزول ہو رہا ہے ۔ لیکن چند مقامات اخص الخاص (خاص سے بھی زیادہ خاص) ہیں۔ ان دو پاکیزہ شہروں کے اور انکے علاوہ قبولیتِ دعا کے مقامات میں سے 15 مقامات ذکر کیے جاتے ہیں:

(1)بیتُ اللہ کے اَندر (2)میزابِ رَحمت کے نیچے (3)حَجرِاَسوَد (4)مَقامِ اِبراہیم کے پیچھے (5)زَم زَم کے کنویں کے قریب (6)مسجدِنبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (7)مُواجَھَہ شریف، اِمام اِبنُ الجزری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:دُعا یہاں قَبول نہ ہوگی تو کہاں قَبول ہوگی(حصن حصین، ص31) (8)منْبرِاطہر کے پاس (9)مسجدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سُتونوں کے نزدیک (10)باقی مساجدِ طیِّبہ جن کو سرکارِمدینہ، سُکونِ قلب وسینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت ہے (مَثَلاً مسجدِغَمامہ، مسجدِ قِبْلَتَین وغیرہ وغیرہ ) (11)وہ مُبارَک کُنویں جنہیں سَروَرِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت ہو (12)جَبَل اُحُد (13)مزاراتِ بقیع (14)مزارِ مطہّر ابو حنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس (15)اسی طرح تمام اولیا و صلحامحبوبانِ خدا کی بارگاہیں، خانقاہیں آرام گاہیں۔(اَحْسَنُ الْوِعَاء لآدابِ الدُّعاء ، فصل چہارم)

دعا مانگنے کی تمام شرائط و ضوابط کا خیال رکھنے اور مخصوص اوقات و مقامات پر دعا مانگنے کے باوجود لازم نہیں ہے کہ کی گئی فریاد پوری ہو بلکہ بعض اوقات اس دعا کے بدلے کچھ اور مل جاتا ہے جیسا کہ اس حدیثِ مبارکہ میں ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بندہ اپنے رب سے جو بھی دعا مانگتا ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے ، (اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ) یا تو اس کی مانگی ہوئی مراد دنیا ہی میں اس کو جلد دیدی جاتی ہے ، یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا دعا کے مطابق اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیا جاتا ہے۔ ( ترمذی، احادیث شتّی، 135-باب، 5 / 347،حدیث: 3618)

لہذا جب بھی دعا مانگی جائے تو نتیجہ میں جلدی نہ کی جائے بلکہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے کہ جو خالقِ باری کو ہمارے حق میں بہتر منظور ہوگا، وہی فیصلہ فرمائے گا ۔

اللہ پاک ہمیں کثرت کے ساتھ اخلاص والی دعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم