دعا کے بارے میں ارشاد ربانی ہے " ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ
لَكُمْؕ- " ترجمہ کنزالایمان : مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا ۔
اس آیت میں لفظ "ادعونی" کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد دعا
ہے معنی یہ ہوا اے لوگو تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا (تفسیر کبیر:ج.9ص.567)دعا
مانگنا عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغز ہے دعا کی عظمت وشان کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ دعا نہ مانگنے والے کے بارے میں کہ اللہ تعالی اس پر غضب فرماتا ہے جیسا
کہ حدیث پاک میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس شخص نے اللہ تعالی سے سوال نہ کیا اللہ تعالی
اس پر غضب فرماتا ہے ۔ ( ترمذی.باب ماجاء فی فضل الدعاء ج5، ص387 ،حدیث :3373)اور
کبھی دعا کی قبولیت اس مقام کی وجہ سے بھی ہوتی ہے جہاں پر دعا کی جائے ۔
آیئے جانتے ہیں بزرگان دین سے منقول قبولیت دعا کے 15
مقامات:
(1)داخل بیت اللہ شریف (بیت اللہ کی عمارت کے اندر) (2) زیر
میزاب:امیر اہلسنت فرماتے ہیں میزاب
رحمت سونے کا پرنالہ ہے ہے یہ رکن عراقی و شمالی کی چھت پر نصب ہے ہے اس سے بارش
کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے (رفیق الحرمین ،ص 61)(3)حطیم: کعبہ معظمہ کی شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی
شکل میں فصیل یعنی باؤنڈری کے اندر کا حصہ ،حطیم کعبۃ اللہ کا حصہ ہے ہے
اس میں داخل ہونا عین کعبۃ اللہ میں داخل ہونا ہے(رفیق الحرمین ،ص61)(4)ملتزم: رکن اسود اور باب کعبہ کی درمیانی دیوار
(فضائل الدعا، ص 128)(5)حجر اسود (یہ جنتی پتھر ہے جو کعبۃ اللہ کے جنوب میں مشرقی
کونے میں واقع رکن اسود میں نصب ہے مسلمان اسے چومتے اور اس استلام کرکے اپنے گناہ دھلواتے ہیں۔
دھو چکا ظلمتِ دل بوسۂ سنگ اسود
خاکے بوسی مدینے کا بھی رتبہ
دیکھو
(حدائق بخشش ، ص65)
(6)مقام ابراہیم علیہ السلام ۔(فضائل الدعا ،ص131)(7)آب
زمزم کے پاس (حصن حصین ،ص 35) (8)مسجد نبوی علیہ الصلوۃ والسلام (فضائل الدعا ،ص 133) (9)منٰی( فضائل الدعا
،ص 132) (10)مزدلفہ ۔ خصوصا جبل قزح کے پاس (فضائل الدعا ،ص 132) (11) نظر گاہ
کعبہ : جہاں کہیں سے بھی کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقام قبولیت ہے ۔(فضائل
الدعا ،ص 132) (12)عرفات: خصوصاً موقف نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ( فضائل
الدعا ،ص 132) (13)صفا اور مروہ (حصن حصین، ص 35)
(14)بزرگان دین کے مزارات
کے پاس : بلکہ بزرگوں کے پاس دعا مانگنا سنت انبیا علیہم السلام ہے ۔زکریا علیہ
السلام نے بی بی مریم کے پاس کھڑے ہوکر اولاد کی دعا کی: هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ
هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب میرے
مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا۔ (پارہ ، 3،آل عمران:38)اولیا
اللہ رحمت رب کے اسٹیشن (مراکز ) ہیں یہاں سے رحمت ملتی ہے ۔(تفسیر نعیمی ج.2
ص234)(15)مواجھہ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔امام ابن جزری فرماتے ہیں
دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کھاں ہوگی۔(حصن حصین ،ص 35)