دعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیات ِکریمہ اور احادیثِ طیبہ وارد ہیں۔ دعا کی عظمت میں حکمت :دعا کی عظمت میں حکمت یہ ہے کہ دعا اللہ کریم سے ہماری محبت کے اظہار اور اس کی ذات پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار ،عظیم عقیدے کا اظہار  ہے۔جب دعا مانگی جاتی ہے تو یہ عقیدہ کہ اللہ کریم ہی ہمارا خالق، مالک،رازق ہے۔تمام عزتیں،عظمتیں،خزانےاسی کے پاس ہیں ۔ایک ایک فرد کو اگر وہ اربوں خزانے عطا کر دے تب بھی اس کے خزانوں میں کوئی سوئی کی نوک برابر کمی نہ ہو گی ۔جب دعا اس قدر عظیم عقیدے کا اظہار ہے تو کیوں نہ اعلیٰ درجے کی عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار پائے۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔ الحدیث۔دعا کی اہمیت قرآن کی روشنی میں: ترجمہ :میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔(سورۃ البقرہ)ترجمہ: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے۔( سورہ المومن ) (یہاں عبادت سے مراد دعا ہے) دعا کی اہمیت احادیث کی روشنی میں: اللہ کریم کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ تر نہیں۔ (ترمذی 5/243 حدیث 3381)دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(ترمذی 5/318 حدیث 3551)اللہ کریم دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ (مسلم، ص 1442، حدیث 2675) جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے۔ (ترمذی، 11/459۔ حدیث 3471)الدعاء سلاح المومن و عماد الدین و نور السموتدعا مسلمانوں کا ہتھیار،دین کا ستون اور آسمانوں کا نور ہے۔ قبولیت دعا کے 15مقامات: مکہ مکرمہ کے کچھ مقامات(1)مطاف (2)بیت اللہ کے اندر (3) ملتزم (4)میزابِ رحمت کے نیچے(5)مستجار(6)حطیم(7)حجر ِاسود(8)مقام ِابراہیم کے پیچھے(9)صفا (10) مروہ۔مدینہ منورہ کے کچھ مقامات:(11)مسجد نبوی(12)مواجہہ شریف۔ امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!(13)منبرِ اطہر کے پاس (14)مسجد قباء شریف ۔مسجد فتح بھی اور باقی مساجد طیبہ جن کو آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے نسبت حاصل ہے۔(15) مزاراتِ بقیع( روایت کے مطابق یہاں پر تقریبا دس ہزار صحابہ کرام علیہم الرضوان آرام فرما ہیں)قبولیتِ دعا کے مقامات میں دعا قبول ہونے کاایک خوبصورت واقعہ قرآن پاک سے ثابت :جب زکریا علیہ السلام کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے تو اس کے پاس پھل پاتے زکریا نے سوال کیا :اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟انہوں نے جواب دیا :اللہ کی طرف سے بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا جو کہ ابھی پالنے یعنی جھولے میں پرورش پا رہی تھی کی یہ کرامت دیکھی تو ان کے دل میں بھی نیک اولاد کی خواہش پیدا ہو گئی جس کی انہوں نےدعا مانگی ۔اس کو قرآن ِمجید نے یوں بیان فرمایا: ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہوہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا مانگیوہیں بیت المقدس کے محراب شریف میں ہی حضرت علیہ السلام نے نیک و پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی ۔آیت: ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہ سے معلوم ہونے والے دعا کے آداب :اس آیت سے چند چیزیں معلوم ہوئی جس جگہ رحمتِ الہٰی کا نزول ہوا ہو وہاں دعا مانگنی چاہیے اور وہاں دعا قبول بھی ہوتی ہے جیسے حضرت زکریا علیہ السلام کی قبول ہوئی۔ اسی لئے خانہ کعبہ اور تاجدار ِرسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روضے پر دعا مانگنے میں زیادہ فائدہ ہے۔ علماء کرام نے اس جگہ کو قبولیت کے مقامات میں شمار کیا ہے جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم،صحابہ کرام و تابعین علیہم الرضوان اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہ غرض ہر زمانے کے نیک لوگ رہے ہیں اور نیک لوگوں کی عادتِ کریمہ ہی ہوتی ہے کہ وہ دعا مانگتے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے۔ کعبہ معظمہ کی فضیلت قرآن سے ثابت :بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایاگیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان والوں کے لیے ہدایت اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو۔ خانہ کعبہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی طرف نماز پڑھی۔ تمام لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا جبکہ بیت المقدس مخصوص وقت میں خاص لوگوں کا قبلہ رہا مکہ معظمہ میں واقع ہے جہاں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ہے اس کا حج فرض کیا گیا اسے امن کی جگہ قرار دیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہنے فرمایا :اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔ اس میں بہت سی نشانیاں رکھی گئی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب تعمیر کعبہ فرما رہے تھے وہ ایک پتھر پر کھڑے ہوتے جو خود بخود اونچا ہوتا تھا اسی کو مقامِ ابراہیم کہتے ہیں یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اس کے علاوہ صفا مروہ پہاڑوں پر حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا کے قدم مبارک پڑے اور پانی کی دعا کی جو کہ اللہ پاک نے قبول فرمائی اور آبِ زم زم جا ری فرمایا۔ القرآن :بےشک صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اسی طرح حجر ِاسود اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے حجر ِاسود کو بوسہ دے کر فرمایا :خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تجھے بوسہ دیتےہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہرگز بوسہ نہ دیتا۔

بھیجا ہے جنت سے تجھ کو خدا نے، چوما ہے تجھ کو میرے مصطفیٰ نے اےسنگِ اسود تیرا مقدر اللہ اکبر، اللہ اکبر