دعا
اللہ پاک سے مناجات کرنے ، اس کی قربت حاصل کرنے ، اس کے فضل وانعام کے مستحق ہونے
اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان اورمجرب ذریعہ ہے ۔ دُعا ایک
عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور احادیثِ طیبہ
وارِد ہیں۔ دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دُعا اللہ پاک
سے ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت،
اُس کے علم و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک
پر ہمارے ایمان کا اقرار و ثبوت ہے۔اسی طرح دعا پیارے مصطفی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی متوارث سنت،اللہ پاک کے پیارے
بندوں کی متواتر عادت، درحقیقت عبادت بلکہ مغزِ عبادت، اورگنہگار بندوں کے حق
میں اللہ پاک کی طرف سے ایک بہت
بڑی نعمت و سعادت ہے ۔دُعا کی اہمیت ا ور وقعت کا اندازہ خود قرآنِ پاک میں اللہ رب
العزت ارشاد فرماتا ہے ۔ ترجمۂ کنزالایمان: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا
جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر۔(پ24، المؤمن:60) یہاں عبادت سے مُراد دُعا ہے ۔ (فضائل
دعا، ص48)ایک
اور مقام پر فرمایا :ترجمۂ کنزالایمان:میں دعا مانگنے والے کی دعا قبو ل کرتا ہوں
جب وہ مجھے پکارے ۔(پ2، البقرۃ :186)دُعا کے
فضائل کے متعلّق چند احادیثِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں:٭دُعا مصیبت و بلا کو
اُترنے نہیں دیتی۔ (مستدرک،ج2،ص162، حدیث:18856)٭دعا
کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ (ترمذی،ج5،ص318، حدیث: 3551)٭دعا
رحمت کی چابی ہے۔(الفردوس،ج
2،ص224، حدیث:3086)اب یہاں قبولیتِ دعا کے کچھ اوقات ذکر کیے جاتے ہیں:قال
الرضا: اوّل(1): مَطاف:قال الرضا:یہ وسط ِمسجد الحرام شریف میں ایک گول
قِطْعَہ ہے ، سنگ ِمرمر سے مَفْرُوش(یعنی زمین کا وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر
بچھا ہوا ہے )اس
کے بیچ میں کعبۂ معظمہ ہے یہاں طواف کرتے ہیں،زمانۂ اقدس حضور سید
عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میں مسجد
اسی قدر تھی،أَفَادَہُ
الْمُصَنِّفُ قُدِّسَ سِرُّہٗ فِيالْجَوَاہِرِ۔دُوُم(2):مُلتزَم۔قال
الرضا:یہ کعبۂ معظمہ کی دیوارِ شرقی کے پارۂ جنوبی کا نام ہے،جو درمیان درِ کعبہ
وسنگِ اَسود واقع ہے ، یہاں لپٹ کر دعا کرتے ہیں۔حدیث شریف میں ہے:حضور
اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے
ہیں :میں جب چاہوں جبرائیل کو دیکھ لوں کہ ملتزم سے لپٹا ہوا کہہ رہا ہے
: ((یَا
وَاجِدُ یَا مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ))۔ ترجمۂ
کنزالایمان:الحمد للہ کہ حضور پُرنور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کرم سے اللہ پاک نے اس گدائے بے
نوا کو بھی یہ دعا کرامت فرمائی بارہا ملتزم سے لپٹ کر عرض کیا ہے : ((یَا وَاجِدُ یَا
مَاجِدُ لَا تُزِلْ عَنِّيْ نِعْمَۃً أَنْعَمْتَھَا عَلَيَّ))۔أَرْحَمُ
الرَّاحِمِیْنَ عَمَّ نَوَالُہٗ سے اُمید ِ قبول ہے ۔وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ أَجْمَعِیْنَ۔)سِوُم(3):مُسْتَجار:رکنِ
شامی و یمانی کے درمیان مُحاذیٔ مُلتَزَم(ملتزم کے سامنے والی دیوار میں
)واقع
ہے۔قال الرضا:یا برقیاس سابق یوں کہئے کہ یہ کعبۂ معظمہ کی دیوارِ غربی کے
پارۂ جنوبی کا نام ہے ، جو درمیان درِ مَسْدُود ورکنِ یمانی واقع ہے ۔)چَہَارُم(4):داخلِ
بیت(بیت
اللہ شریف کی عمارت کے اندر)۔ پَنْجُم(5):زیرِ میزاب۔شَشُم(6):حطیم۔(5):سورج
ڈھلتے۔ حدیث میں ہے:اس وقت آسمان کے دروازے کھلتے ہیں۔( ابن ماجہ
ابواب اقامۃالصلوات والسنہ وبہا،باب فی الاربع الرکعات قبل الظہر ، حدیث :1157،ج2،ص40
)
نیز حدیثحَسَن
بِطُرُقِہٖ میں فرمایا:جب
سائے پلٹیں اور ہوائیں چلیں تو اپنی حاجات عرض کرو کہ وہ ساعت اَوَّابِین کی ہے(یعنی
وہ وقت اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے والوں کا ہے )۔ رواہ الدیلمي
وأبو نعیم عن ابن أبي أوفی رضي اللہ عنہ۔(6):رات کو سونے سے جاگ کر۔قال
الرضا:حضور سید عالم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے
ہیں:جو رات کو سوتے سے جاگے پھر کہے:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ
لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرٌ، اَلْحَمْدُ
لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلَا إِلٰـہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہ۔اس کے بعد اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ
لِيْ(اے اللہ
پاک! میری مغفرت فرما) کہے۔یا فرمایا:دعا مانگے ، قبول ہو اور اگر وضو کر کے
دو رکعت پڑھے نماز مقبول ہو۔رواہ البخاري، وأبو داود والترمذي والنسائي
وابن ماجہ عن عبادۃ بن الصامت رضي اللّٰہ تعالٰی عن(7):بعد قرأت
سورۂ اِخلاص وغیر ذلک۔(8):رجب کی چاند رات۔ (9): شبِ برأت(10):شبِ عیدالفطر۔(11):شبِ عید
الاضحی۔ابنِ
عساکر عن أبي أمامۃ رضي اللہ تعالٰی عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ
وسلم : خمس لیال لا تردّ فیھن الدعوۃ أوّل لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من
شعبان ولیلۃ الجمعۃ ولیلۃ الفطر ولیلۃ النحر)۔ (12):رات
کی پہلی تِہائی۔(13):رات کا پچھلا ثُلُث(یعنی آخری تہائی)۔ (14):
اذان سننے میں بعدحَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ (15): تلاوتِ سورہ ٔاَنعام میں
دو اسم جلالت کے ما بین یعنی آیۂ کریمہ:(مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ)ترجمۂ
کنزالایمان : جیسا اللہ کے رسولوں کو
ملااللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھے۔میں دونوں لفظ اللہ کے درمیان
دعا کرے ۔ایسا نہیں کہ قبولیت کے تمام مواقع بیان کردیئے گئے ہوں بلکہ مذکورہ
اوقات کے علاوہ اور بھی ہوسکتے ہیں۔دعا مانگ کر نتیجہ اللہ پاک کے ذمہ
کرم پر چھوڑ دینا چاہیے کہ رحمٰن و رحیم خدا ہمارے ساتھ وہی معاملہ فرمائے جو
ہمارے حق میں بہتر ہے۔ قضائے الٰہی پر راضی رہنا بہت اعلیٰ مرتبہ ہے اور حقیقت میں
ہمارے لئے یہی مفید تر ہے کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے جبکہ خدا کا علم لامتناہی و محیط
ہے۔رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِرشاد
فرماتے ہیں: اے عزیز!دعا ایک عجیب نعمت اور عمدہ دولت ہے کہ پروردگار نے اپنے
بندوں کو کرامت فرمائی اور اُن کو تعلیم کی،حلِ مشکلات میں اس سے زیادہ کوئی
چیز مؤثر نہیں ، اور دفعِ بلا وآفت میں کوئی بات اس سے بہتر نہیں۔