دعا مانگنا بہت بڑی سعادت ہے۔دعا ایک نعمت اور عمدہ دولت ہے جو اللہ پاک سے مناجات کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے اور بخشش و مغفرت حاصل کرنے کا نہایت آسان اور مجرب طریقہ ہے۔ دعا مانگنا سنت بھی ہے کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اکثر اوقات دعا مانگتے۔ اسی طرح دعا مانگنے میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت بھی ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے غلاموں کو دعا کی تاکید فرماتے رہتے۔قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں جگہ جگہ دعا مانگنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔قرآنِ پاک میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:ادعو نی استجب لکمترجمہ ٔکنزالایمان:مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔(پارہ 24، المومن، آیت 60)پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: الدعاء مخ العبادةترجمہ: دعاء عبادت کا مغز ہے۔( سنن الترمذی ج5، ص243، حدیث 3382)ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: بلا اترتی ہے پھر دعا اس سے جا ملتی ہے۔ پھر دونوں قیامت تک جھگڑا کرتے رہتے ہیں۔( المستدرک ج2، ص162، حدیث 1856)بعض لوگ دعا کی قبولیت کے لئے بہت جلدی مچاتے بلکہ معاذاللہ! باتیں بناتے ہیں کہ ہم تو اتنے عرصے سے دعائیں مانگ رہے ہیں مگر اللہ پاک ہماری حاجت پوری نہیں کرتا۔ بسا اوقات دعا کی قبولیت میں کافی مصلحتیں بھی ہوتی ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں لہٰذا ہمیں ایسی باتوں سے بچنا چاہیے اور اللہ پاک کی رضا میں راضی رہنا چاہیے۔ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ اور قطعِ رحمی کی کوئی بات شامل نہ ہو تو اللہ پاک اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک ضرور عطا فرماتا ہے:1- یا اس کی دعا کا نتیجہ جلد ہی اس کی زندگی میں ظاہر ہو جاتا ہے۔2- اللہ پاک کوئی مصیبت اس بندے سے دور فرما دیتا ہے یا3- اس کے لئے آخرت میں بھلائی جمع کی جاتی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے: بندہ جب آخرت میں اپنی دعاؤں کا ثواب دیکھے گا جو دنیا میں مستجاب(یعنی قبول) نہ ہوئی تھیں تو تمنا کرے گاکہ کاش!دنیا میں میری کوئی دعا قبول نہ ہوتی۔( المستدرک للحاکم ج2، ص163، 165 حدیث 1859، 1862) اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ دعا کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتی۔اگر دنیا میں دعا قبول نہ بھی ہو تو آخرت میں اس کا اجر و ثواب مل جائے گا لہٰذا دعا کی قبولیت میں جلدی مچانے سے بچنا چاہیے۔اللہ پاک اپنے بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے لیکن یاد رہے! دعا کی قبولیت کے لئے چند شرطیں ہیں اور وہ یہ ہیں:دعا میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے، دل کسی غیر کی طرف مشغول نہ ہو، دعا کسی امر ممنوع پر مشتمل نہ ہو، اللہ پاک کی رحمت پر یقین رکھتا ہو، شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی قبول نہ ہوئی جب ان شرطوں سے دعا کی جائے، قبول ہوتی ہے۔دعا کی قبولیت کے بہت سے مقامات ہیں جن میں سے چند بیان کئے جاتے ہیں۔1۔ صفا۔2۔ مروہ۔3۔ مسجد نبی۔4۔ مسعی:مقامِ سعی یعنی صفا و مروہ کے درمیان کا راستہ، خصوصا جب دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے کہ وہ بھی دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔5۔ نظر گاہِ کعبہ یعنی جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقام قبولیت ہے۔6۔ داخل بیت (بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر)۔7۔ مسجد قباء شریف میں۔8۔ مسجد الفتح میں خصوصا بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان۔امام احمد بسندِ جید اور بزار وغیرہما جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے راوی: حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسجد فتح میں تین دن دعا فرمائی، دو شنبہ، سہ شنبہ، چہار شنبہ (یعنی پیر، منگل اور بدھ کے دن)۔ چہار شنبہ کے دن دونوں نمازوں کے بیچ میں اجابت فرمائی گئی کہ خوشی کے آثار چہرہ انور پر نمودار ہوئے۔ جابر رضی اللہ عنہفرماتے ہیں: جب مجھے کوئی امر مہم (اہم کام) بشدت پیش آتا ہے، میں اس ساعت میں دعا کرتا ہوں اجابت ظاہر ہوتی ہے۔(المسند، للامام احمد بن حنبل، الحدیث: 14569، ج5، ص 87)9۔ مواجہہ شریفہ حضور سیدالشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہو گی تو کہاں ہو گی! (الحصن الحصین، اماکن الاجابة، ص31)10۔ وہ کنویں جنہیں حضور پرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف نسبت ہے۔11۔ جبلِ احد شریف (یعنی احد پہاڑ)۔12 ۔مزاراتِ بقیع و احد۔13۔ منبر اطہر کے پاس۔14۔ مسجد اقدس کے ستونوں کے نزدیک۔15۔ اولیا و علما کی مجالس۔اللہ پاک ہمیں دعا کی اہمیت و فضیلت کو سمجھتے ہوئے ایسے مقامات پر ادب کے ساتھ دعا مانگنے کا سلیقہ عطا فرمائے اور دعا کے ذریعے سے اپنا قرب نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم