حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیاں

حضرت شعیب علیہ السلام اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی تھے آپ علیہ السلام مدین میں رہتے تھے مدین کے بارے میں فرمایا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک صاحب زادے جن کا نام مدیان تھا ان کی اولاد اس شہر میں آباد ہوگی اس لئے اسے مدین کہا گیا ۔ آپ علیہ السلام بھیڑ بکریاں پالتے اور انہیں بیچ کر روزی کماتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام اللہ پاک کی عبادت میں دن رات مشعول رہتے اور لوگوں کو تبلیغ دین کرتے آپ علیہ السلام فرماتے اے قوم اللہ پاک کی بندگی کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں اور حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں بہت سی برائیاں تھیں۔

1.جھوٹ بولتے تھے۔ 2 لوگوں کا حق غضب کرتے تھے۔ 3 کمزوروں کا مال لیتے تھے 4 بتوں کی پوجا کرتے تھے5 زمین پرفساد برپا کرتے تھے، 6ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔اگر کوئی چیز دینا چاہتے تھے تو کم کر لیتے اور لینا چاہتے تھے تو زیادہ کر لیتے اس قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے اللہ پاک نے حضرت شعيب علیہ السلام کو مبعوث فرمایاآپ علیہ السلام لوگوں کو نیک اعمال کرنے کی تلقین کرتے جب کسی سے بات کرتے تو سلجھے اور اچھے انداز میں کرتے آپ علیہ السلام وعظ و نصیحت کرتے تو اس طرح کرتے کہ معمولی سوچ رکھنے والا بھی بہت متاثر ہوتا۔ حضرت شعیب علیہ السلام جن جن باتوں کی تبلیغ کرتے تھے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شعیب علیہ السلام کی قوم تجارت کا پیشہ کرتی تھی۔وہ تجارت میں بددیانتی کرتی تھی وہ ناپ تول میں کمی کرتی تھی حضرت شعیب علیہ السلام نیکی کی تلقین کرتے تووہ آپ کی بات نہ مان کرآپ کے دشمن بن گئے قوم نے حضرت شعیب علیہ السلام کی تمام تر باتوں کو جھٹلایا حضرت شعیب علیہ السلام مایوس ہو کر ان کے رویے سے خفا ہو کر بستی سے نکل گئے اس کے بعد ان پر اللہ کا عذاب آیا ایک دل ہلا دینے والی آفت نے ان کو گھیر لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے قرآن مجید میں سورۃ الاعراف میں حضرت شعیب علیہ السلام کو مبعوث فرمانے کا تذکرہ ہے ۔اللہ پاک نے سورۂ حجر میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے واقعہ کے بعد فرمایا: " اور مدین کے رہنے والے یعنی(حضرت شعیب علیہ السلام)بھی ظالم تھے تو ہم نے ان سے بدلہ لیا اور یہ دونوں شہر کھلے راستے پر موجود ہیں۔(سورة الحجر٫15 78, 79) حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیاں عروج پر تھیں وہ سمجھاتے قوم کو کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو اور فساد اور خرابی پیدا نہ کرو۔

حضرت شعیب علیہ السلام کے درس سے ہمیں معلوم ہوا کہ لوگوں کو دھوکا دینا اور چیزوں میں ملاوٹ کرنا نیز ناپ تول میں کمی کرنا سخت اخلاقی جرائم ہیں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم انہی جرائم کی مرتکب تھی لہٰذا آپ علیہ السلام کی مصلحانہ کوششوں کی ناکامی پر سخت عذاب کا شکار ہو ئی۔ ارشاد باری ہے: ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہو تو پورا پورا لیتے ہو اور جب انہیں ناپ تول کردیتے ہو تو کم کرتے ہو (المطففین1-2-3)


پارہ 19، سورۃ الشعراء،  آیت نمبر 176 میں ہے:

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۷۶)

ترجمہ كنز الايمان:"بن (جنگل) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔"

اس آیت میں جس جنگل کا ذکر ہوا، یہ مدین شہر کے قریب تھا اور اس میں بہت سے درخت اور جھاڑیاں تھیں، اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کی طرح ان جنگل والوں کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھا اور یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم سے تعلق نہ رکھتے تھے۔(جلالین، الشعراء، تحت الآیۃ:176، صفحہ 315، مدارک الشعراء، تحت الآیۃ:176، ص829، ملتقضاً)

نافرمانیاں:

جنگل والوں نے اس وقت حضرت شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا اور حضرت شعیب علیہ السلام کو جھٹلا تمام رسولوں کو جھٹلایا، جب حضرت شعیب علیہ السلام نے ان سے فرمایا:کیا تم کفر و شرک پر اللہ پاک کے عذاب سے نہیں ڈرتے، بے شک میں تمہارے لئے اللہ پاک کی وحی اور رسالت پر امانت دار رسول ہوں، تو تم اللہ پاک کے عذاب سے ڈرو اور میں تمہیں حکم دیتا ہوں، اس پر میری اطاعت کرو۔(خلاصۃً)

ان لوگوں سے کہا گیا ہےکہ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:

پارہ26، سورۃ الشعراء، آیت نمبر 181، 182، 183، 184 میں ارشاد ہوا:

ترجمہ:"اے لوگو! ناپ پورا کرو اورناپ تول کوگھٹانے والوں میں سے نہ ہوجاؤ اور بالکل درست ترازو سے تو لو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو، اس سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کو پیدا کیا۔"

آیات کا خلاصہ ہے کہ ناپ تول میں کمی کرنا، لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا، رہزنی اور لوٹ مار کرکے اور کھیتیاں تباہ کرکے زمین میں فساد پھیلانا، ان لوگوں کی عادت تھی، اس لئےحضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں ان کاموں سے منع فرمایا اور ناپ تول پورا کرنے کا حکم دیا اور اس کے بعد ساری مخلوق کو پیدا کرنے والے ربّ کے عذاب سے ڈرایا۔

پارہ 26، سورۃ الشعراء، آیت نمبر 185، 186، 187 میں ارشاد ہوا:

ترجمہ:"قوم نے کہا:(اے شعیب!)تم تو ان میں سے ہو، جن پر جادو ہوا ہے، تم تو ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہو اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں سے سمجھتے ہیں تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا دو، اگر تم سچے ہو۔"

ان آیات کا خلاصہ یہ ہےکہ لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحت سن کر کہا:اے شعیب!تم تو ان لوگوں میں سے ہو، جن پر جادو ہوا ہے اور تم کوئی فرشتے نہیں، بلکہ ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہو اور تم نے جو نبوت کا دعویٰ کیا ہے، بے شک ہم تمہیں اس میں جھوٹا سمجھتے ہیں، اگر تم نبوت کے دعوے میں سچے ہو تو اللہ پاک سے دعا کرو کہ وہ عذاب کی صورت میں ہم پر آسمان سے کوئی ٹکرا گرا دے۔(مدارک، سورۃ الشعراء، تحت الآیۃ:185، 187، صفحہ 835، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ:185، 187/302 ملتقضاً)

عذابِ الٰہی:

سورۃ الشعراء، آیت:188، 189 میں ارشاد ہوا:

ترجمہ:شعیب نے فرمایا:"میرا ربّ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا، بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔"

ارشاد فرمایا کہ جنگل والوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا تو انہیں شامیانے کے دن کے عذاب نے پکڑ لیا، بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا، جو کہ اس طرح ہوا کہ انہیں شدید گرمی پہنچی، ہوا بند ہوئی اور سات دن گرمی کے عذاب میں گرفتار رہے، تہہ خانوں میں جاتے، وہاں اور زیادہ گرمی پاتے، اس کے بعد ایک بادل آیا، سب اس کے نیچے آ کر جمع ہو گئے تو اس سے آگ برسی اور سب جل گئے۔(مدارک، سورۃ الشعراء، تحت الآیۃ:189، صفحہ830)

دعا:اللہ پاک ہمیں پچھلی قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور جو مسلمان گناہوں، نافرمانیوں میں مبتلا ہیں، انہیں عقلِ سلیم نصیب فرمائے ۔آمین


انسان کی فطرت ہے کہ حکایات و واقعات کے ضمن میں کی گئی نصیحتوں کو وہ  جلدی قبول کرتا ہے، قرآن پاک نے بھی کئی گزشتہ قوموں کی نافرمانیوں اور بُرے انجام کے واقعات بیان فرما کر ہمیں خبردار کیا ہے کہ ان جیسی نافرمانیوں کا اِرتکاب تم ہرگز نہ کرنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی ان کی طرح عذاب الہی میں گرفتار کر دیئے جاؤ۔

ان قوموں میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے، حضرت شعیب علیہ السلام کو دو قوموں کی طرف مبعوث کیا گیا۔ 1۔اہلِ مدین، 2۔اصحاب الایکہ

ایکہ مدین کے قریب ہی سر سبز جنگلوں اور مرغزاروں کے درمیان موجود ایک شہر تھا، یہ دونوں قومیں تجارت پیشہ تھیں اور دونوں ایک ہی طرح کی برائیوں میں مبتلا تھیں۔(سیرت الانبیاء، مطبوعہ مکتبہ المدینہ، صفحہ 521، 505 ، کچھ ترمیم کے ساتھ)

بالآخریہ دونوں قو میں بھی قہرِ الٰہی کا شکار ہو کر قیامت تک کے لئے نشانِ عبرت بنا دی گئیں، ان میں پائی جانے والی چند برائیاں درج ذیل ہیں:

1۔اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار اور بتوں کی پوجا کرنا۔

2۔نعمتوں کی ناشکری کرنا۔

3۔ناپ تول میں کمی کرنا۔

4۔لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا۔

5۔قتل و غارت گری وغیرہ کے ذریعے زمین میں فساد پھیلانا۔

6۔ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹ لینا۔

7۔راستوں میں اس لئے بیٹھنا، تا کہ لوگوں کو اذیت دیں۔

8۔جس چیز کی طرف دیکھنا حلال نہیں، اسے دیکھنا۔

9۔غریبوں پر ظلم کرنا۔

10۔مسلمانوں کا مذاق اڑانا، نماز پڑھنے والوں اور اہلِ علم پر طنز کرنا۔

11۔مال ضائع کرنا۔

12۔غربت کی وجہ سے عار دلانا۔(سیرت الانبیاء، مطبوعہ مکتبہ المدینہ، صفحہ 507،508، کچھ ترمیم کے ساتھ)

آئیے اب ایک نظر اپنے معاشرے پر ڈالتے ہیں، وہ کونسی بُرائی ہے جو آج ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جارہی، وہ کون سا گناہ ہے، جو آج بظاہر مسلمان کہلانے والے بھی بے باکی کے ساتھ کرتے نظر نہیں آتے، افسوس! ہم قران پڑھتے تو ہیں، لیکن ان واقعات سے عبرت حاصل نہیں کرتے، ہم نے قرآن کو اپنے گھر کی اَلماریوں کی زینت تو بنا رکھا ہے، لیکن اپنے دِلوں کو نورِ قرآن سے مُزیّن کرنا بھول گئے۔

درسِ قرآن گر ہم نے نہ بھلایا ہوتا

یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا


شعیب علیہ السلام کی قوم کی نا فرمانیاں

الحمدللہ ہم مسلمان ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آخری نبی ہیں ۔ جو ہمارے لیے اللہ کی آخری کتاب لے کر تشریف لائے۔ جس میں از اول تا آخر ہرشے کا بیان موجود ہے ۔ اپنی برگزیدہ کتاب میں اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ وہیں نافرمان بندوں کو ڈرانے کے لئے گزشتہ اقوام پر نازل کیے جانے والے عذابوں کا تذکرہ بھی موجود ہے انہی میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ہے جو مدین کہلاتی تھی۔ اور اس بستی کا نام بھی مدین تھا ۔ اس بستی کا نام مدین اس لیے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے۔

قرآن پاک کی سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 85 میں ارشاد باری ہے :اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا ۔

انہوں نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئ۔تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو۔ اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ ۔کہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔حضرت شعیب عليه السلام کی قوم میں شرک کے علاوہ جوگناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا ہے جب کوئی شخص ان کے پاس کوئی چیز بیچنے آتا تو ان کی كوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیز كو جتنا زیارہ لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو کوئی چیز دیتے تو ناپ اور تول میں کمی کرجاتے اسطرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے مصروف تھے. اسی لیے حضرت شعیب علیه السلام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا " ناپ تول میں کمی نہ کرو اس کے بعد فرمایا۔ بے شک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں۔ اور ایسے حال میں آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے (تفسیر صراط الجنان)

فی زمانہ بھی بہت سارے لوگ اس قبیح فعل میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔ خصوصاً تاجر برادری کے لوگ ان افعال کو تجارت کے اعلی گر سمجھتے ہیں ان کی عقل ناقص کے مطابق جن تاجروں میں یہ اعلی گر نہ ہوں وہ تجارت میں کامیابی حاصل کر ہی نہیں سکتے ۔کبھی ترازو کے باٹوں میں کمی بیشی کی جاتی ہے تو کبھی وزن ناپنے کے اسکیل میں گڑ بڑ کی جاتی ہے ۔ کہیں گرم مسالے کو گیلی بوری کے اندر رکھ کر اسکا وزن بڑھا دیا جاتا ہے تو کہیں مہنگی مصنوعات کے اندر سستی مصنوعات کی آمیزش کے ذریعے اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ناپ میں کمی اس طرح کی جاتی ہے کہ پورا سوٹ کہہ کر جو کپڑا دیا جاتا ہے گھر آ کر کھولیں تو پورا سوٹ بن ہی نہیں پاتا۔اسی طرح پیٹرول پمپ پر بھی جدید طریقوں سے پورے پیسے لے کر پیٹرول کم کردیا جاتا ہے غرض شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب جس گناه کی وجہ سے آیا آج ہماری قوم میں بھی یہ گناہ تیزی سے سرایت کرتا نظر آرہا ہے ۔ اس پر تماشا یہ ہے کہ اگر کوئی امت کی خیرخواہی کی نیت سے اسطرح توجہ دلاۓ تو جواب ملتا ہے « یا شیخ اپنی اپنی دیکھ "

اے کاش ہم قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر پڑھ کر گزشتہ اقوام کے احوال سے سبق حاصل کرتے۔ اللہ پاک دنیا و آخرت میں ہمیں اپنے غضب سے محفوظ فرمائے۔ (آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)


مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے،  بعد میں حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کے قبیلے کا نام مدین پڑ گیا، اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔

حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کو مدین والوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا، حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا"اے میری قوم!اللہ پاک کی عبادت کرو، اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں"، کفر کے بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بُری عادت یہ تھی کہ وہ خرید وفروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا تو ان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیز کو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں، اتنا لے لیں اور جب کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے، اس طرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے، اس لئے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں یہ برُی عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا"ناپ اور تول میں کمی نہ کرو" اور فرمایا"کہ بے شک میں تمہیں خوش حال دیکھ رہا ہوں" اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہئے کہ وہ نعمتوں کی شُکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کر دیئے جاؤ، اگر تم ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے تو بے شک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میّسر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہو جائیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔( تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ:84، 6/384، مدارک، ہود، تحت الآیۃ:84، ص 508۔509، ملتقظاً)

قرآن مجید میں ارشادِ رب العزت کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے:ترجمہ:"اور اے میری قوم! انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو، اللہ کا دیا جو بچ جائے وہ تمہارے لئے بہتر ہے، اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔"(سورہ ھود، آیت84۔ 85)

"اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں"یعنی تم سے صادر ہونے والے ہر معاملے میں میرا تمہارے پاس موجود رہنا ممکن نہیں تاکہ میں ناپ تول میں کمی بیشی پر تمہارا مؤاخذہ کر سکوں۔(قرطبی، ہود، تحت الآیۃ:86، 5/61، الجزء التاسع)

علماء نے فرمایا ہے کہ بعض انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو جنگ کرنے کی اجازت تھی، جیسے حضرت موسٰی، حضرت داؤد، حضرت سلیمان علیہم الصلوۃ والسلام، بعض وہ تھے جنہیں جنگ کا حکم نہ تھا، حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام انہی میں سے تھے، آپ سارا دن وعظ فرماتے اور ساری رات نماز میں گزارتے تھے، قوم آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے کہتی کہ اس نماز سے آپ کو کیا فائدہ؟ تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے" نماز خوبیوں کا حکم دیتی ہے، برائیوں سے منع کرتی ہے" تو اس پر وہ مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے:

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ-اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(۸۷)

ترجمہ کنز الایمان:" بولے اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چاہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑےعقل مند نیک چلن ہو۔"( پارہ 12، سورہ ھود، آیت87)

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قوم نے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ و السلام کے حلیم و رشید ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان کا یہ کلام طنزاورمذاق اُڑانے کے طور پر نہ تھا، بلکہ اس کلام سے مقصود یہ تھا کہ آپ حلم اور کمالِ عقل کے باوجود ہم کو اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے سے کیوں منع فرماتے ہیں؟ اس کا جواب جو حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ"جب تم میرے کمالِ عقل کا اعتراف کر رہے ہو تو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ میں نے اپنے لئے جو بات پسند کی ہے، وہ وہی ہوگی، جو سب سے بہتر ہو اور وہ خدا کی توحید اور ناپ تول میں خیانت نہ کرنا ہے اور چونکہ میں اس کا پابندی سے عامل ہوں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہی طریقہ بہتر ہے۔"(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ:88، 6/388)

حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے مدین والوں کو سمجھانے کے لئے زیادہ گفتگو فرمائی تو انہوں نے جواب دیا"اے شعیب علیہ الصلوۃ والسلام!آپ اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کرنے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور ناپ تول میں کمی حرام ہونے کی جو باتیں کر رہے ہیں اور ان باتوں پر جو دلائل دے رہے ہیں، یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے، نیز بے شک ہم تمہیں اپنے درمیان کمزور دیکھتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ کچھ زیادتی اور ظلم کریں تو آپ میں دفاع کرنے کی طاقت نہیں، اگر آپ کا قبیلہ ہمارے دین پر ہونے کی وجہ سے ہم میں عزت دار نہ ہوتا تو ہم پتھر مار مار کر آپ کو قتل کر دیتے اور تم تمہارے نزدیک کوئی معزز آدمی نہیں ہو۔(بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ:91، 3/286۔287)

جب مدین والوں پر عذاب نازل کرنے اور انھیں ہلاک کر دینے کا ہمارا حکم آیا تو ہم نے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام اور اُن پر ایمان لانے والوں کو محض اپنی رحمت اور فضل کی وجہ سے اس عذاب سے بچا لیا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو جو بھی نعمت ملتی ہے، وہ اللہ پاک کے فضل اور اس کی رحمت سے ملتی ہے۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ:94، 6/392)

لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحت کو سن کر کہا"اے شعیب!تو تم ان لوگوں میں سے ہو، جن پر جادو ہوا ہے اور تم کوئی فرشتہ نہیں ہو، بلکہ ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہواور تم نے نبوت کا جو دعویٰ کیا ہے، بے شک ہم تمہیں اس میں جھوٹا سمجھتے ہیں، اگر تم نبوت کے دعوے میں سچے ہو تو اللہ پاک سے دعا کرو کہ وہ عذاب کی صورت میں ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:185۔187، ص830، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: 185۔187،6/،304ملتقظاً)

ایکہ(جنگل) والوں کی طرف:

حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کو ایکہ(جنگل) والوں کی طرف بھی رہنمائی کا پیکر بنا کر بھیجا گیا، یہ مدین شہر کے قریب تھا اور اس میں بہت سی جھاڑیاں اور درخت تھے، قرآن مجید میں ارشادِ رب العلمین ہے :

قَالَ رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۸۸) فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۸۹)

فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے کوتک ہیں تو انہوں نے اُسے جھٹلایا تو اُنہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آلیا بےشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔(پارہ19، الشعراء:188، 189)

جنگل والوں نے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کو جھٹلایا تو انہیں شامیانے کے دن عذاب نے پکڑ لیا، بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا، جو کہ اس طرح ہوا کہ انہیں شدید گرمی پہنچی، ہوا بند ہوئی اور سات دن گرمی کے عذاب میں گرفتار رہے، تہ خانوں میں جاتے، وہاں اور زیادہ گرمی پاتے، اس کے بعد ایک بادل آیا، سب اس کے نیچے آ کر جمع ہوگئے تو اس سے آگ برسی اور سب جل گئے۔(مدارک، الشعراء، تحت الایۃ:189، ص830)ہمارے زمانے کے وہ لوگ جنہیں اِسلام کے احکام پر کوفت ہوتی ہے کہ کسی کو سود کی حُرمت ہضم نہیں ہوتی، کسی کو پردے کی پابندی وبالِ جان لگتی ہے اور کسی کو حقوق اللہ کی ادائیگی اور عبادت کی پابندی پر مذاق سُوجھتا ہے، ایسے لوگوں کو اپنے اقوال و افعال کو قومِ شعیب کے بیان کردہ جملوں کے ساتھ ملا کر دیکھ لینا چاہئے کہ کیا یہ اسی کافر قوم کے نقشِ قدم پر نہیں چل رہے۔


مختصر تعارف:

"اہلِ مدین عرب تھے"نسل کے لحاظ سے اہلِ مدین عرب تھے، جو اپنے شہر "مدین" میں رہائش پذیر تھے اور اطراف شام میں"ارض معان" کے قریب اور قومِ لوط کے بحیرہ کے بھی قریب تھا اور قومِ لوط کے بحیرہ کے قریب "ارضِ حجاز" سے متصل تھا، یہ لوگ قومِ لوط کے بعد قریب کے زمانہ میں ہوئے ہیں، مدین" شہر قبیلہ" کے نام سے معروف تھا اور وہ نبی"مدین بن مدیان بن ابراہیم الخلیل" ہیں۔

حضرت شعیب علیہ السلام کا سلسلہ نسب:

وہ "ابن میکیل بن شجن" ہیں، محمد بن اسحاق نے اس کا تذکرہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں، انہیں "سریانی" زبان میں"یتر ون" کہا جاتا ہے، لیکن یہ بات محل نظر ہے اور بعض اور بعض نے کہا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب یوں ہے کہ"شعیب بن یشخر بن لاوی بن یعقوب" اور بعض نے اس طرح بیان کیا ہے کہ "شعیب بن نویب بن عیفا بن مدین بن ابراہیم علیہ السلام" ہے اور ان کے نسب کے بارے میں اور بھی کئی اقوال ہیں، جیسے بعض نے اس انداز سے ذکر کیا ہے"شعیب بن صیفور بن عیفا بن ثابت بن مدین بن ابراہیم علیہ السلام"۔

قوم کا پیشہ:

یہ لوگ "ناپ تول" والے سودے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔

حضرت شعیب کی قوم کی نافرمانیاں:

1۔ناپ تول میں کمی کرنا:

اس کے بارے میں ارشادِ رب العلمین ہے:

وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۸۵) بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(۸۶)

اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرواللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں ۔"(پارہ12، سورہ ھود، آیت84۔ 85)(تفسیر صراط الجنان)

بقیت اللہ:

اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے، یعنی حرام مال ترک کرنے کے بعد جس قدر حلال مال بچے، وہی تمہارے لئے بہتر ہے، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:"اس کا معنی یہ ہے کہ پورا تولنے اور ناپنے کے بعد جو بچے، وہ بہتر ہے"، ان کے علاوہ اور بھی مفسرین نے معنی بیان فرمائے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ حلال میں برکت ہے اور حرام میں بے برکتی، نیز حلال کی تھوڑی روزی، حرام کی زیادہ روزی سے بہتر ہے۔(تفسیر صراط الجنان)

2۔حضرت شعیب کا حکم نہ ماننا:

جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے:

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(۸۴)

ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بےشک میں تمہیں آسودہ حال(مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے (پارہ 12، ھود: 85، 84)(تفسیر صراط الجنان، سورہ ھود، آیت84)

حضرت شعیب نے مدین والوں سے کہا:اے میری قوم!اللہ پاک کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں، فرمایا کہ"ناپ تول میں کمی نہ کرو" لیکن مدین والوں نے آپ کے حکم پر عمل نہ کیا۔

3۔اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار:

جس کا ذکر قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے:

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ-اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(۸۷)

ترجمہ کنز الایمان:" بولے اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چاہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑےعقل مند نیک چلن ہو۔"( پارہ 12، سورہ ھود، آیت87)

(تفسیر صراط الجنان، ترجمہ کنزالعرفان)

حضرت شعیب نے مدین والوں کو دو باتوں کا حکم دیا تھا،1۔اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کریں اور اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں، 2۔ناپ تول میں کمی نہ کریں، قوم نے ان باتوں کا جواب اس طرح دیا کہ ہم ان خداؤں کی عبادت کرنا چھوڑ دیں، جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے اور دوسرا کہ ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں، چاہے کم نا پیں کم تولیں، اس آیت میں انہوں نے اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار کیا اور بُت پرستی پر اپنے آباؤ اجداد کی تقلید میں لگے رہے۔



حضرت شعیب کی قوم  اہلِ مدین اور اصحاب الایکہ تھی، انہوں نے آنحضرت کی مختلف طریقوں سے نافرمانی کی اور جب ان کی نافرمانی آخری حد تک پہنچ گئ، تو ان پر عذاب نازل ہو گیا۔

حضرت شعیب علیہ السلام تیسرے عرب نبی ہیں، جن کا اسمِ گرامی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اور عرب انبیاء تھے، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا نام قرآن کریم میں11 بار ذکر ہوا ہے، اللہ پاک حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین اور ایکہ کے لوگوں کی طرف بھیجا، تا کہ آنحضرت ان لوگوں کو خدائی دین اور وحدانیت کی طرف ہدایت کریں اور بُت پرستی اور برائیوں سے نجات دیں، مدین ایسا شہر تھا، جو سرزمینِ معان شام کے قریب حجاز کے آخری حصّہ میں قرار پایا ہے، وہاں کے لوگ بُت پرستی، برائی اور لین دین میں خیانت اور دھوکہ بازی کرتے تھے، ناپ تول میں کمی اور خرید و فروخت میں خیانت کرتے، حتٰی کے پیسوں کے سکّوں میں سونا چاندی کو کم کرنا ان میں عام تھا اور دنیا سے محبت اور دولت اکٹھی کرنے کی وجہ سے دھوکہ فریب دیا کرتے تھے اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں کے عادی تھے، ایکہ مدین کے قریب آباد اور درختوں سے بھرا ہوا گاؤں تھا، وہاں کے لوگ بھی مدین کے لوگوں کی طرح برائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔اللہ پاک نے مدین کے لوگوں میں سے حضرت شعیب علیہ السلام کو نبوت کے لئے مبعوث کیا، تاکہ ان کے آس پاس والے لوگوں کو گناہوں سے نکال کر توحید کی طرف پکاریں، پروردگارِ عالم نے سورہ ہود میں حضرت شعیب علیہ السلام اور آنحضرت کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے:

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(۸۴)وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۸۵)

ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بےشک میں تمہیں آسودہ حال(مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو"(پارہ 12، ھود: 85، 84)

اور سورۃ العنکبوت میں فرمایا ہے:

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۳۶)

ترجمۂ کنز الایمان: مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی اُمید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو (پارہ20، عنکبوت:36)

اور نیز اصحاب الایکہ کے بارے میں سورہ ٔ شعراء میں فرمایا ہے:

كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۷۶) اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۷۷) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۷۸) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۷۹)

ترجمہ کنز الایمان: بَنْ(جنگل) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا جب اُن سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔(پارہ 19، الشعراء:آیت 176 سے 179)

حضرت شعیب علیہ السلام نے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور بشارت بھی دی اور عذاب قومِ نوح، قومِ ہود، قومِ صالح اور قومِ لوط پر آئے تھے، وہ بھی ان کو یاد دلوائے اور ان کے بُرے کاموں سے دستبردار ہونے کی نصیحت پر پوری کوشش کی، لیکن ان کا طغیانِ کفر اور فسق ہی بڑھتا رہا، ان لوگوں میں سے سوائے چند افراد کے کوئی ایمان نہ لایا، بلکہ آنحضرت کواذیت دی، مذاق اڑایا، دھمکی دی اور دیگر افراد کو شعیب کی فرمانبرداری سے منع کیا، جو راستہ بھی حضرت شعیب پر اختتام پذیر ہوتا تھا، اس پر بیٹھ جاتے اور گزرنے والے لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس جانے سے ڈراتے اور جو آنحضرت پر ایمان لائے تھے، انہیں اللہ کی راہ سے منع کرتے اور اللہ کے راستے کو ٹیڑھا دکھاتے، اور کوشش کرتے کہ جتنا ہوسکے لوگوں میں اس راستے کی نفرت پھیلائیں اور پھر الزام لگانا شروع کر دیا، کبھی آنحضرت کو دھمکی دی، کبھی جادوگر کہتے، کبھی کذّاب(جھوٹا) کہتے، انہوں نے آنحضرت کو دھمکی دی اور کہا کہ اگر آپ تبلیغ سے دستبردار نہ ہوں تو ہم آپ کو سنگسار کریں اور دوبارہ آنحضرت اور آنحضرت پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں شہر سے نکال دیں گے، مگر یہ کہ ہمارے بت پرستی کے دین پر آجاؤ، انہوں نے اپنے اس کردار کو باقی رکھا، یہاں تک کہ آنحضرت ان کے ایمان لانے سے بالکل نا اُمید ہو گئے، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور دعا کی، اللہ پاک سے فتح طلب کی اور عرض کیا:

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(۸۹)

ترجمہ کنز الایمان: اے رب ہمارے ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر۔"(پارہ 9، اعراف:89)

اس دعا کے بعد اللہ پاک نے عذاب یوم الظلہ نازل کیا، جس دن سیاہ بادلوں نے ہر جگہ پر اندھیرا کر دیا اور سیلاب بہانے والی بارش برس گئی، اس جھٹلانے والی قوم نے حضرت شعیب علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کر دو، حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے، قرآن کریم نے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کے بارے میں فرمایا ہے:

وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴)

ترجمہ کنز الایمان: اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے شعیب اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔ (پارہ12، ھود:94)

حضرت شعیب کی قوم کی نافرمانیاں:

1۔وہ لوگ کفر و شرک میں مبتلا تھے اور درختوں کی پوجا کرتے تھے۔

2۔بیوپار میں بے ایمانی اور ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔

3۔راستوں میں بیٹھ کر لوٹ مار کرتے، لوگوں کے اموال چھینتے اور غنڈہ ٹیکس وصول کرتے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں غنڈہ ٹیکس کی بنیاد قومِ شعیب ہی نے رکھی تو بے جا نہ ہوگا۔

4۔حضرت شعیب علیہ السلام کو اذیت دی، مذاق اُڑایا، دھمکی دی اور دیگر افراد کو آنحضرت کی فرمانبرداری سے منع کیا۔


شعیب علیہ السلامکی قوم کی نافرمانیاں

الله پاک نے مختلف ادوار میں لوگوں کی اصلاح اور انہیں صراط مستقیم دکھانے کے لیے اپنے انبیاء کرام علیہم الرضوان بھیجے ، جنہوں نے انہیں برے افعال و اقوال کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کر نے اور سیدھے راستے پر چلنے کی ہدایت فرمائی ، جن خوش نصیبوں نے ان کی پیروی کی اور حکم پر عمل کیا وه دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گئے اور جنہوں نے نا فرمانی و سرکشی جاری رکھی وه عذاب الہی میں گرفتار ہو گئے ۔ اللہ پاک نے ایسی قوموں کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا ، انہیں میں سے ایک قوم ” قوم مدین “ ہے ۔ اہل مدین عرب قوم تھے جوکہ اطراف شام میں معان کی سرزمین کی ایک بستی مدین کے رہنے والے تھے۔ اللہ پاک نے اپنے نبی شعیب علیہ السلامکو ان کی طرف بھیجا مگر اس قوم نے دعوت حق قبول نہ کی اور اپنی نافرمانیوں سے باز نہ آئے ،تو اللہ پاک نے اس قوم کو ذلت ورسوائی کا نشان بنادیا۔

قوم مدین کی جن نافرمانیوں کا ذکر قرآن پاک میں ہے وہ یہ ہیں ۔

1. الله پاک پر ایمان لانے والوں کو دھمکا کر روكنا - ( پ 8 ، سورۂ الاعراف 86)

2. راستے میں بیٹھ کر راہ گیروں کو ڈرانا اور لوٹ مار کرنا۔ (پ 8، سورۂ الاعراف 86)

3. ناپ تول میں ، لین دین میں کمی کرنا۔ (پ 12 ، سورہ ہود 84) *

4. حضرت شعیب علیهم السلام کا مذاق اُڑانا ،جب انہوں نے نماز کاحکم دیا۔(پ 12، سورۂ ہود ، 87)

5. نبی کی شان میں گستاخی والے کلمات کہنا ، پتھر مارنے کی دھمکی دینا ۔(پ12 - سورۂ ہود: 91)

6. جب یہ قوم اپنی نافرمانی اور سرکشی سے باز نہ آئی تو اللہ قہار و جبارکے عذاب میں گرفتار ہو گئی، جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتاہے ؛ ترجمہ کنزالایمان: ” تو انہیں شدید زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا توصبح کے وقت وہ اپنے کمروں میں اوندھے پڑے رہ کرے “ (پ9، الاعراف: 91)

افسوس صد افسوس! اگر ہم قوم مدین میں پائی جانے والی خصلتیں دیکھیں اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ سب ہمیں اب بھی نظر آئے گا۔ لوگوں کو سیدھی راہ سے روکنا ، چوکوں اور محلوں میں ڈرانا ، دھمکانااور لوٹ مار کرنا ، ناپ تول میں کمی کرنا الغرض یہ سب ہمارے معاشرے میں بھی عام ہے ، بس یہ ہی سمجھ آتا ہے کہ :

**درس قرآن اگر ہم نے نہ بھلایا ہوتا

یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا**

اب بھی وقت ہے اس قوم کے عذاب سے لرز جائیں اور سامان آخرت کرتے ہوئے گناہوں سے بچیں ! اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے۔اللھم آمین ۔


جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا اور انہیں اپنی ربوبیت پر قرار کرنے پر گواہ بنایا جس کا ذکر سورہ اعراف آیت نمبر  172 میں ہے۔

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اے محبوب یاد کرو جب تمہارے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا،کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے۔

تو شیطان نے اپنی پرانی دشمنی کے سبب بنی نوع انسان کو اس وعدہ کے خلاف کرنے کے لیے کاروائی عمل میں لائی اور گمراہ کر دیا لہذا اللہ تعالی کا اپنے پیارے انبیاء کو بھیجنے کا ایک مقصد اس وعدہ " اَلَسْتُ "کی یاد دہانی کروانا بھی ہے اور ان انبیاء میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں۔

آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو مدین نامی شہر میں بسنے والی قوم کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے نیز ان کو ان کے برے کاموں پر تنبیہہ کرتے ہوئے منع کرتے تھے ۔لیکن انہوں نے اپنے اس محسن کو اپنا بڑا دشمن سمجھا۔نہ صرف آپ کی شان میں گستاخی کی بلکہ شہر کے راستوں میں بیٹھ کر آنے والے لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس جانے سے یہ کہتے ہوئے روکتے تھے کہ آپ علیہ السلام جادوگر ہیں۔ جب ان کی نافرمانیاں زور پکڑتی گئیں اور چند مسلمانوں کے علاوہ بقیہ قوم اپنے انہی حرکات میں ڈٹی رہیں تو اللہ پاک نے ابتداءً چیخ کے ساتھ پھر شدید زلزلے کی صورت میں اس قوم کو ہلاک کر دیا۔

اس قوم کی نافرمانیاں مندرجہ ذیل ہیں :۔

(1)شرک (2)ناپ تول میں کمی اور دوسرے لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (3)لوگوں کو حضرت شعیب علیہ سلام سے دور کرنا (4)ان کے سرداروں کا حضرت شعیب علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنا ۔(صراط الجنان ،3/371)

یہ وہ امور تھے جن کے ارتکاب کے سبب انہیں ہمیشگی والے عذاب کا منہ دیکھنا پڑا ۔لہذا ہم غور کریں کہ کہیں یہ مفسدات ہمارے معاشرے میں تو نہیں ۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ بے برکتی کا دور دورہ ہے ہر بندہ یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ ہمیں پورا نہیں ہوتا۔ تو کہیں وہ ان امور مفسدہ کے ارتکاب میں ملوث تو نہیں۔ جن کے سبب پچھلی قومیں ہلاک کر دی گئی۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ نیک کاموں کو اپنے اوپر نافذ کریں تاکہ بسبب فضل الٰہی بروز محشر نبی آخرالزمان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے شرمندگی سے بچیں۔ 


حضرت شعیب علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں ۔جن کی دو بیٹیاں تھیں۔جن میں سے ایک شادی حضرت موسی علیہ سلام سے کیا تھا ۔ان کو اہل مدین کی طرف بھیجا گیا اور انہوں نے بھی آپ کے ساتھ وہی رویہ رکھا جو ان سے پہلے کفار نے حضرت شعیب علیہ السلام سے پہلے انبیاء کے ساتھ رکھا۔

ان کی قوم ناپ تول میں بہت کمی کرتی تھی۔ اور وہ لوگوں کو کم چیزیں دیا کرتے تھے۔ یہ راستے میں بیٹھ کر لوگوں کو ڈراتے اور لوگوں کو ایمان لانے سے منع کرتے تھے۔ اور خود کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکنے اور دوسروں کو بھی بھٹکانے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر ہر دور کی طرح اس دور کے کفار اور متکبر لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کو شہر سے نکالنے کی دھمکی دی۔ یہ مسلمان ٹس سے مس نہ کر سکی ۔پھر کافروں نے کمزور لوگوں کو اپنے جھوٹے کہاں نیوں اور جھوٹے حیلوں سے راہ حق سے ہٹانے اور ڈرانے کی کوششیں بھی کیں لیکن وہ ناکام ہوگئے۔

پھر آخر کار اللہ کا فیصلہ آگیا تو وہ عذاب میں گرفتار ہو کر ختم ہوگئے جیسے ان سے پہلے کی قومیں ختم ہوگئیں تھیں۔ اس عذاب کی کیفیت بھی قرآن میں اللہ نے بیان کی ہے۔ کہ پہلے ایک زور دار چیخ آئی پھر شدید زلزلے نے اس کا ایسا کام تمام کیا گویا کہ یہاں پر رہتے ہی نہ تھے۔

اس میں غور طلب بات تو یہ ہیں کہ کفار کا کیسا انجام ہوا۔ لیکن اس سے ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جو اسلام کے اصولوں کے خلاف اقتصادی ترقی چاہتے ہیں۔ تاریخ بھی گواہ ہے جب اسلامی قوانین رائج تھے اس وقت مسلمانوں کی حالت کیا تھی۔ اس کے بعد کیا حالت ہوگئی۔

اللہ تعالی ہمیں شعیب علیہ سلام کی قوم سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اس نے انسانوں کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انہی میں سے کچھ نیک اور برگزیدہ بندے بھیجے۔ ایسے بندوں کو نبی  و رسول کہتے ہیں ۔ان رسول پر اللہ نے کتابیں نازل فرمائی تاکہ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی لوگ اللہ کی کتابوں سے نصیحت حاصل کرتے رہیں۔ اور سب سے آخر میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی مقدس کتاب نازل فرمائی ۔اس مقدس کتاب میں بے شمار مضامین بیان ہوئے ہیں۔ ان مضامین میں سے ایک مضمون قصص بھی ہے۔

قرآن مجید کے اس مضمون میں سابقہ انبیاء کرام علیہ السلام اور ان کی امتوں کے واقعات بیان ہوئے تاکہ لوگ سبق حاصل کریں۔ بہت سی ایسی قومیں گزریں ہیں جن کو اللہ نے انعام و اکرام کی کی طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا لیکن انہوں نے اپنی ناشکری کے باعث عذاب الہی کے مستحق ہوئیں۔ انہی قوموں میں سے ایک قوم حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم ہے۔ انہوں نے حضرت شعیب علیہ سلام کو جھٹلایا تو ان پر آگ برسی اور سب جل گئے۔

قرآن میں حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم کی نافرمانیوں کا تذکرہ ہے ان میں سے چند یہ ہیں:۔ (1) کفر و شرک کرتے تھے (2) اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرتے (3) حضرت شعیب علیہ سلام کو جھٹلا کر تمام رسولوں کو جھٹلا یا (4) ناپ تول میں کمی کرنا (5) لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (6) رہزنی اور لوٹ مار کرنا (7) کھیتیاں تباہ کر کے زمین میں فساد پھیلانا (8) حضرت شعیب علیہ سلام نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ تم ان لوگوں میں سے جن پر جادو ہوا ہے ۔

افسوس کہ ہمارے معاشرے میں ناپ تول میں کمی کرنا رہزنی اور لوٹ مار کرنا وغیرہ تمام برائیاں پائی جاتی ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


 قرآن پاک میں اللہ تعالی نے بہت سے موضوعات کو بیان فرمایا ہے ان میں سے ایک گزشتہ امتوں کے واقعات بھی ہیں ۔ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرے۔ اور ان نافرمانیوں سے خود کو بچائے جن کی وجہ سے وہ قومیں دنیا میں ذلت و رسوائی کا شکار ہوئی۔ انہی قوموں میں سے ایک قوم شعیب علیہ سلام کی بھی ہے۔ اس قوم کی کسی بستی کا نام مدین ہے۔ یہ حضرت شعیب علیہ سلام کے قبیلے کا نام ہے۔ اس بستی کا نام مدین اس لیے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کے اولاد میں سے تھے۔ مدین اور مصر کے درمیان اسّی( 80) دن کے سفر کی مقدار کا فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب علیہ سلام بھی حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولاد سے ہیں ۔آپ علیہ سلام کی دادی حضرت لوط علیہ سلام کی بیٹی تھی۔ حضرت شعیب علیہ سلام اہل مدین کے ہم قوم تھے۔ اور آپ انبیاء بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔(خازن)

شعیب علیہ سلام کی قوم کی جن نافرمانیوں کا ذکر قرآن پاک میں ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

(1) کفر و شرک (2) ناپ تول میں کمی کرنا(3) لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (4) لوگوں کو حضرت شعیب علیہ سلام سے دور کرنے کی کوشش کرنا (5) ہم ضرور تمہیں اور تمہارے ساتھ مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے (6) زمین میں فساد پھیلانا (7) بتوں کی پوجا کرنا (8) نصیحتوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنا

قوم نے نصیحتوں پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا :" بولے اے شعیب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بےشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں"۔(پ 12،ھود 91)

ہمارے زمانے کے وہ لوگ جنہیں اسلام کے احکام پر کوفت ہوتی ہے کہ کسی کو سور (Pig) کی حرمت ہضم نہیں ہوتی۔ اور کسی کو پردے کی پابندی وبال جان لگتی ہے اور کسی کو حقوق اللہ کی ادائیگی اور عبادات کی پابندی پر مذاق سوجھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے اقوال و افعال کو قوم شعیب کے بیان کردہ جملوں کے ساتھ ملا کر دیکھ لینا چاہیے کہ کیا یہ اسی کافر قوم کے نقش پر نہیں چل رہے ہیں۔

خدا را ! شعیب علیہ سلام کی قوم کی نافرمانیوں کے عبرت ناک انجام سے خود کو ڈرائیے ۔ان برائیوں سے خود کو بچائیے ورنہ یاد رکھے!! اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم