مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے،  بعد میں حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کے قبیلے کا نام مدین پڑ گیا، اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔

حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کو مدین والوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا، حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا"اے میری قوم!اللہ پاک کی عبادت کرو، اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں"، کفر کے بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بُری عادت یہ تھی کہ وہ خرید وفروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا تو ان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیز کو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں، اتنا لے لیں اور جب کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے، اس طرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے، اس لئے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں یہ برُی عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا"ناپ اور تول میں کمی نہ کرو" اور فرمایا"کہ بے شک میں تمہیں خوش حال دیکھ رہا ہوں" اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہئے کہ وہ نعمتوں کی شُکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کر دیئے جاؤ، اگر تم ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے تو بے شک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میّسر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہو جائیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔( تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ:84، 6/384، مدارک، ہود، تحت الآیۃ:84، ص 508۔509، ملتقظاً)

قرآن مجید میں ارشادِ رب العزت کا ترجمہ ملاحظہ کیجئے:ترجمہ:"اور اے میری قوم! انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو، اللہ کا دیا جو بچ جائے وہ تمہارے لئے بہتر ہے، اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔"(سورہ ھود، آیت84۔ 85)

"اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں"یعنی تم سے صادر ہونے والے ہر معاملے میں میرا تمہارے پاس موجود رہنا ممکن نہیں تاکہ میں ناپ تول میں کمی بیشی پر تمہارا مؤاخذہ کر سکوں۔(قرطبی، ہود، تحت الآیۃ:86، 5/61، الجزء التاسع)

علماء نے فرمایا ہے کہ بعض انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو جنگ کرنے کی اجازت تھی، جیسے حضرت موسٰی، حضرت داؤد، حضرت سلیمان علیہم الصلوۃ والسلام، بعض وہ تھے جنہیں جنگ کا حکم نہ تھا، حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام انہی میں سے تھے، آپ سارا دن وعظ فرماتے اور ساری رات نماز میں گزارتے تھے، قوم آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے کہتی کہ اس نماز سے آپ کو کیا فائدہ؟ تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے" نماز خوبیوں کا حکم دیتی ہے، برائیوں سے منع کرتی ہے" تو اس پر وہ مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے:

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ-اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(۸۷)

ترجمہ کنز الایمان:" بولے اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چاہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑےعقل مند نیک چلن ہو۔"( پارہ 12، سورہ ھود، آیت87)

امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قوم نے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ و السلام کے حلیم و رشید ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان کا یہ کلام طنزاورمذاق اُڑانے کے طور پر نہ تھا، بلکہ اس کلام سے مقصود یہ تھا کہ آپ حلم اور کمالِ عقل کے باوجود ہم کو اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے سے کیوں منع فرماتے ہیں؟ اس کا جواب جو حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ"جب تم میرے کمالِ عقل کا اعتراف کر رہے ہو تو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ میں نے اپنے لئے جو بات پسند کی ہے، وہ وہی ہوگی، جو سب سے بہتر ہو اور وہ خدا کی توحید اور ناپ تول میں خیانت نہ کرنا ہے اور چونکہ میں اس کا پابندی سے عامل ہوں تو تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہی طریقہ بہتر ہے۔"(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ:88، 6/388)

حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے مدین والوں کو سمجھانے کے لئے زیادہ گفتگو فرمائی تو انہوں نے جواب دیا"اے شعیب علیہ الصلوۃ والسلام!آپ اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کرنے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور ناپ تول میں کمی حرام ہونے کی جو باتیں کر رہے ہیں اور ان باتوں پر جو دلائل دے رہے ہیں، یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتے، نیز بے شک ہم تمہیں اپنے درمیان کمزور دیکھتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے ساتھ کچھ زیادتی اور ظلم کریں تو آپ میں دفاع کرنے کی طاقت نہیں، اگر آپ کا قبیلہ ہمارے دین پر ہونے کی وجہ سے ہم میں عزت دار نہ ہوتا تو ہم پتھر مار مار کر آپ کو قتل کر دیتے اور تم تمہارے نزدیک کوئی معزز آدمی نہیں ہو۔(بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ:91، 3/286۔287)

جب مدین والوں پر عذاب نازل کرنے اور انھیں ہلاک کر دینے کا ہمارا حکم آیا تو ہم نے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام اور اُن پر ایمان لانے والوں کو محض اپنی رحمت اور فضل کی وجہ سے اس عذاب سے بچا لیا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کو جو بھی نعمت ملتی ہے، وہ اللہ پاک کے فضل اور اس کی رحمت سے ملتی ہے۔(تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ:94، 6/392)

لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحت کو سن کر کہا"اے شعیب!تو تم ان لوگوں میں سے ہو، جن پر جادو ہوا ہے اور تم کوئی فرشتہ نہیں ہو، بلکہ ہمارے جیسے ایک آدمی ہی ہواور تم نے نبوت کا جو دعویٰ کیا ہے، بے شک ہم تمہیں اس میں جھوٹا سمجھتے ہیں، اگر تم نبوت کے دعوے میں سچے ہو تو اللہ پاک سے دعا کرو کہ وہ عذاب کی صورت میں ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے۔(مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ:185۔187، ص830، روح البیان، الشعراء، تحت الآیۃ: 185۔187،6/،304ملتقظاً)

ایکہ(جنگل) والوں کی طرف:

حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کو ایکہ(جنگل) والوں کی طرف بھی رہنمائی کا پیکر بنا کر بھیجا گیا، یہ مدین شہر کے قریب تھا اور اس میں بہت سی جھاڑیاں اور درخت تھے، قرآن مجید میں ارشادِ رب العلمین ہے :

قَالَ رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۸۸) فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِؕ-اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۸۹)

فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے کوتک ہیں تو انہوں نے اُسے جھٹلایا تو اُنہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آلیا بےشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔(پارہ19، الشعراء:188، 189)

جنگل والوں نے حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کو جھٹلایا تو انہیں شامیانے کے دن عذاب نے پکڑ لیا، بے شک وہ بڑے دن کا عذاب تھا، جو کہ اس طرح ہوا کہ انہیں شدید گرمی پہنچی، ہوا بند ہوئی اور سات دن گرمی کے عذاب میں گرفتار رہے، تہ خانوں میں جاتے، وہاں اور زیادہ گرمی پاتے، اس کے بعد ایک بادل آیا، سب اس کے نیچے آ کر جمع ہوگئے تو اس سے آگ برسی اور سب جل گئے۔(مدارک، الشعراء، تحت الایۃ:189، ص830)ہمارے زمانے کے وہ لوگ جنہیں اِسلام کے احکام پر کوفت ہوتی ہے کہ کسی کو سود کی حُرمت ہضم نہیں ہوتی، کسی کو پردے کی پابندی وبالِ جان لگتی ہے اور کسی کو حقوق اللہ کی ادائیگی اور عبادت کی پابندی پر مذاق سُوجھتا ہے، ایسے لوگوں کو اپنے اقوال و افعال کو قومِ شعیب کے بیان کردہ جملوں کے ساتھ ملا کر دیکھ لینا چاہئے کہ کیا یہ اسی کافر قوم کے نقشِ قدم پر نہیں چل رہے۔