حضرت شعیب علیہ سلام کو رب تعالی نے مدین کی طرف مبعوث فرمایا۔ قوم نے آپ کی رسالت کو جھٹلایا اور قوم جو کہ طرح طرح کی خرافات میں مبتلا تھی یہ آپ علیہ سلام کو جھٹلاتی رہی۔ قرآن کریم میں  جابجا قوم شعیب کی نافرمانیاں کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ رب تعالی نےارشاد فرمایا:

ترجمہ کنز الایمان: اور اس کی قوم کے کافر سردار بولے کہ اگر تم شعیب کے تابع ہوئے تو ضرور تم نقصان میں رہو گے۔(پ 9 ،الأعراف 90)

حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم ناپ تول میں کمی کرتی تھی اور رب تعالی کی عبادت نہ کرتی تھی۔ چنانچہ رب تعالی ارشاد فرماتاہے۔

ترجَمۂ کنزُالایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بےشک میں تمہیں آسودہ حال(مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں۔(پ 12،ہود 84)

حضرت شعیب کی قوم ناپ تول میں کمی کے ساتھ زمین میں فساد بھی مچاتی تھی چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ کنز الایمان : اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو،اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو۔(پ 12،ھود 85،86)

حضرت شعیب علیہ سلام کی قوم ان کو کمزور خیال کرتی تھی چنانچہ فرمان باری تعالی ہے۔ترجَمۂ کنزُالایمان: بولے اے شعیب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بےشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں۔(پ 12،ہود 91)

حضرت شعیب کی قوم انبیاء علیہم السلام کو جھٹلاتی تھی چنانچہ فرمان رب العباد ہے : ترجمہ کنزالایمان: بَنْ(جنگل ) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا ،جب اُن سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں۔(پ 19،شعراء 176،177)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی نافرمانیوں سے محفوظ فرمائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم کر تے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-  ترجمہ کنزالایمان: اور مَدیَن کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا۔(پ 8،الأعراف 85)

شعیب علیہ سلام کی بستی اور قبیلے کا نام بھی مدین تھا۔ یہ اس لیے ہوا یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد سے تھے۔ حضرت شعیب علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام بھی حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اولاد تھے۔ آپ کی دادی حضرت لوط علیہ سلام کی بیٹی تھی۔ حضرت شعیب اہل مدین کے ہم کون تھے اور انبیاء بنی اسرائیل سے نہ تھے۔

(خازن ،2/118،تحت الآیۃ 85)

اللہ تعالی نے پارہ 8 سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 85 میں ارشاد فرمایا : فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ ترجمہ کنز الایمان: تو ناپ تول پوری کرو۔

شعیب علیہ سلام کے قوم میں کفر و شرک کے علاوہ اور بھی بہت سے گناہ تھے جن میں سے تین یہ ہیں: (1)۔ ناپ تول میں کمی کرنا (2) لوگوں کو ان کے چیزیں کم کر کے دینا (3)لوگوں کو حضرت شعیب علیہ سلام سے دور کرنے کی ناپاک جسارت کرنا ۔جب نبی علیہ سلام نے ان باتوں سے منع کیا اور اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے دین کی تبلیغ کی تو قوم کے سردار بولے جسے اللہ تعالی نے پارہ 9 سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 88 میں ارشاد فرمایا: قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ

ترجمہ کنز الایمان: اس کی قوم کے متکبر سردار بولے اے شعیب قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔

(الاعراف ،2/272،تحت الآیۃ 88)

اسی طرح گفتگو چلتی رہی جب ان کی جہالت اور گمراہیاں اللہ کے نبی کی گستاخیاں انتہا درجے کو پہنچی تو ان کو شدید زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ سورہ ہود میں اس کا ذکر کچھ اس طرح ہے: وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴) ترجمہ کنز الایمان: اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔

(پ 12،ھود 94)

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت شعیب علیہ سلام کو اصحاب ایکۃ کی طرف بھی مبعوث فرمایا اور اہل مدین کی طرف بھی۔ اصحاب ایکۃ تو ابر سے ہلاک ہوئے مگر اہل مدین زلزے میں گرفتار ہوئے اور ہولناک آواز سے مر گئے۔

(خازن ،الاعراف،2/120،تحت الآیۃ 91)

ناپ تول میں کمی کرنے کی سزا :حضرت نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک بیچنے والے کے پاس سے گزر رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے ۔اللہ سے ڈر !اور ناپ تول پورا پورا کر !کیونکہ کمی کرنے والے کو میدان محشر میں کھڑا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اس کا پسینہ اس کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔

اللہ تعالی ہمیں ناپ تول پورا کرنے اور دوسروں کا حق کھانے، تول میں کمی کرنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین 


خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے آپ علیہ السلام مدین شہر میں رہتے اور یہاں کے لوگ کفر وشرک، ناپ تول میں کمی جیسی نافرمانیوں میں مبتلا تھے آپ علیہ السلام نے انہیں احسن انداز میں تبلیغ کی اور جب سرداران قوم اور عوام نے نافرمانیوں پر قائم رہنے کو ترجیح دی تو شعیب علیہ السلام کی دعا سے ان کو ہولناک چیخ اور زلزلے کے عذاب سے تباہ کر دیا گیا۔ اور پھر آپ علیہ السلام کو اصحابِ اَیکہ کی طرف مبعوث فرمایا۔یہ لوگ بھی اہل مدین جیسی نافرمانیوں میں مبتلا تھے انھوں نے بھی نصیحت حاصل نہ کی تو بادل کے ایک ٹکڑے سے آگ برسا کر راکھ کر دئیے گئے ۔

(سیرت الانبیاء صفحہ 504 مكتبۃالمدينہ )

سيدنا شعيب علیہ السلام کی قوم کی نافرمانیوں کی طویل فہرست ہے ان میں سے اجمالاً 18 نافرمانیاں ذکر کرتے ہیں:

(1) الله تعالٰی کی وحدانیت کا انکار کرنا(2)بتوں کو پوجا کرنا (3) نعمتوں کی ناشکری کرنا (4) ناپ تول میں کمی کرنا (5) لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (6) قتل و غارت گری اور دیگر نافرمانیوں کے ذریعے زمین میں فساد کرنا (7) ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹنا (8) لوگوں کو اذیت دینے کے لیے راستوں میں بیٹھنا (9) اور جس چیز کو دیکھنا ان کے لیے حلال نہیں، اس کو دیکھنا (10) غریبوں پر ظلم کرنا (11) درہم و دینار بنا کر انھیں کسی بھی صحیح غرض کے بغیر توڑ پھوڑ دینا (12تا16)مسلمانوں کا مذاق اڑانا، نمازی اور اہل علم پر طنز کرنا، انھیں جبری احکام دینا، ان پر اپنی بڑائی جتانا، اور انھیں حقیر جاننا (17)بیماری اور غربت کی وجہ سے عار دلانا (18) لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا ۔

(سیرت الانبیاء ، صفحہ507اور508مکتبۃ المدينہ)

"لاتقعد" کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ راستے میں بیٹھتے تھے اور جو بھی ان کے پاس آتا اسے یہ بتاتے کہ شعیب علیہ السلام ( معاذاللہ) کذاب ہیں پس وہ تمہیں تمہارے دین کے بارے میں فتنہ میں نہ ڈال دے۔

(تفسیر طبری جلد 10 صفحہ 313 سورۃ الاعراف آیۃ 86 ھجر لطباعۃ والنشر القاھرہ)

جب آپ علیہ السلام انہیں درہم و دنانیر کے کاٹنے سے منع کیا تو انہوں نے جواب دیا بے شک یہ ہمارے مال ہیں ہم ان میں جو چاہیں کریں گے اگر ہم نے چاہا تو انہیں توڑ دیں گے اگر ہم نے چاہا تو جلا دیں گے اور ہم نے چاہا تو انہیں پھینک دیں گے۔

(تفسیر درمنثور جلد 3 صفحہ 1055 مکتبہ ضیاء القرآن)

اس طرح کی بیمار ذہنیت کے افراد کی ہمارے معاشرے میں کمی نہیں ،اسلامی احکام پر عمل کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں بلکہ اسلامی احکام کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

الله عزوجل سے دعا ہے ہم سب کو ہدایت نصیب کرے آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے جو موضوعات ذکر کیے ہیں  ان میں سے گزشتہ قوم کے واقعات بھی ہیں تاکہ ہم ان واقعات سے عبرت حاصل کریں اور ان کاموں و عادات سے بچیں جو ان میں تھی انھیں قوموں میں سے قوم شعیب بھی تھی ۔

اللہ عزوجل نے ان کی طرف ان کے ہم قوم حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجاحضرت شعیب علیہ السلام مدین میں رہتے تھے ان کے قبیلے اور بستی کا نام مدین تھا۔

یہ قوم اللہ عزوجل کی نافرمانیوں میں ڈٹی رہی تو اللہ عزوجل نے ان پر عذاب نازل فرمایا چنانچہ قرآن پاک میں ہے(تو انہیں شدید زلزلے نے اپنی گرفت میں لے لیا تو صبح کے وقت وہ اپنے گھروں میں اوندے منہ پڑے رہ گے) (سورہ اعراف آیت نمبر ۹۱)

قوم شعیب کی جن نافرمانیوں کا ذکر قرآن پاک میں ہے ان میں سے چند یہ ہیں :

۱۔ناپ تول میں کمی کرتے تھے(اعراف۸۵)

۲۔لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دیتے تھے(اعراف۸۵)

۳۔لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرتے تھے(اعراف۸۵)

۴۔زمین میں فساد کرتے تھے

۵۔ راستے میں راہ گیروں کو ڈراتے تھے

۶۔ڈاکہ زنی کرتے تھے(اعراف ۸۶)

۷۔ غرور وتکبر کرتے تھے(اعراف ۸۸)

آہ افسوس صد کروڑ افسوس یہ برا ئیاں ہمارے معاشرے میں بھی پھیلتی جا رہی ہیں :ناپ تول میں کمی کرنا ،غرور وتکبر کرنا،ڈاکہ زنی کرنا ۔یہ برائیاں ایسی ہیں کہ ہمارے معاشرے پائی جاتی ہیں اور کافی لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں ۔خدارا اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائیے اور تھوڑی سی خوشی کی خاطر ان میں مبتلا مت ہوئیے یاد رکھیئے !ہم نے ایک دن مرنا ہے اور اللہ عزوجل کا عذاب سخت اور بڑا ہے۔

تو خوشی کے پھول لے گا کب تلک تو یہاں زندہ رہے گا کب تلک

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جاہے تماشہ نہیں ہے


قرآن پاک میں اللہ پاک نے جن موضوعات کو بیان فرمایا ہے ان میں سے ایک گزشتہ امتوں کے واقعات بھی ہیں، ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کریں اور نافرمانیوں سے خود کو بچائیں۔ انہیں قوموں میں سے ایک قوم حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی ہے

حضرت شعیب علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ رسول، حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر ان کے صہری والد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے آپ علیہ السلامسلام مَدیَن شہر میں رہتے تھے یہاں کے لوگ کفر و شرک ، بت پرستی اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوتے تھے ۔

ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو مقرر فرمایا۔آپ علیہ السلام نے انہیں احسن انداز میں توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع کیا ۔ عرصہ دراز تک تبلیغ و نصیحت کے باوجود صرف گِنے چُنے افراد ہی دولتِ ایمان سے مشرف ہوئے اور دیگر افراد کو سر دارانِ قوم نے معاشی بدحالی اور تجارتی خسارے سے ڈرا دھمکا کر ایمان سے دور رکھا۔ جب سردارانِ قوم اور عوام نے کفر و شرک اور دیگر گناہوں پر ہی قائم رہنے کو ترجیح دی اور ان کے ایمان لانے کی صورت نہ رہی تو حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے انہیں ایک ہولناک چیخ اور زلزلے کے عذاب سے تباہ و برباد کر دیا۔ پھر آپ علیہ السلام کو اصحاب اَیْکہ کی طرف مبعوث فرمایا ۔ یہ لوگ بھی اہل مَدیَن جیسے ہی گناہوں میں مبتلا تھے، انہوں نے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کی تبلیغ سے نصیحت حاصل نہ کی تو انہیں بادل کے ایک ٹکڑے سے آگ برسا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔

اہل مَدیَن کے گناہ:

اہل مدین کے گناہوں اور جرائم کی ایک طویل فہرست ہے ان میں سے چند گناہ یہ ہیں:

1: اللہ تعالی کی وحدانیت کا انکار کرنا

2: بتوں کی پوجا کرنا

3: نعمتوں کی ناشکری کرنا

4: ناپ تول میں کمی کرنا

5: لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا

6: ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹ لینا

7: قتل و غارت گری اور دیگر گناہوں کے ذریعے زمین میں فساد کرنا

8: مسلمانوں کا مذاق اڑانا

9: لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا

اور اس کے علاوہ بہت سے ایسے گناہ ہیں جن کی وجہ سے ان پر اللہ تعالی کا عذاب نازل ہوا۔

یا اللہ ہمیں پچھلی قوم کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے عبرت حاصل کرنے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم

( ماخوذ سیرت الانبیاء ص 504 تا 508 )


قرآن مجید کی وہ آیات مبارکہ جن میں اللہ تعالیٰ نے پچھلی امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرما یا ہیں اُ ن میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر وہ قوم جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ، اللہ اور رسول کے احکامات پر عمل نہ کیا اور ایمان نہ لائے ،اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کو ذلیل و رسواء کر دیا اور ان پر درد ناک عذاب نازل فرما کر ہلاک فرما دیا چنانچہ اپنے سے پہلی امتوں کےحالات معلوم کرنا، قوم کے بننے،بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکم الٰہی ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠(۸۴) ترجمہ کنزالایمان: تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا ۔

8،اعراف 84:)

یعنی پچھلی امتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام عبرت کی نگاہ سے دیکھو او رسوچو۔ انہیں اقوام میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے۔

شعیب علیہ السلام اور آپ کی قوم کی مختصر تعارف:

اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو اہل مدین کی طرف بھی مبعوث فرمایا تھا اور اصحاب ِ اَیکَہ کی طرف بھی ۔ اہل مد ین زلزلہ میں گرفتار ہوئے اور ایک ہولناک آواز سے ہلا ک ہو گئے جبکہ اصحاب ایکہ ابر ( بارش) سے ہلاک کئے گئے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا:

وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴)12،ہود :94) ترجمہ کنزالایمان:اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ(۹۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو انہیں زلزلے نے آلیا تو صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ 9،اعراف 91)

حضرت شعیب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں آپ علیہ السلام کی دادی حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں حضرت شعیب علیہ السلام اہل مدین کے ہم قوم تھے۔ مدین حضرت شعیب علیہ السلام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا۔اس بستی کا نام مدین اس لئے ہو اکہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان ، الاعراف،تحت الآیۃ 85)

قوم ِشعیب علیہ السلام کی نا فرمانیاں :

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں شرک کے علاوہ اور بھی بہت سے گنا ہ اور نا فرمانیاں عام تھیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔

(1) ناپ تول میں کمی کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ 12،ھود : 84) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال (مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں۔

(2)لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ ( پ8،اعراف: 85) ترجمہ: اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو

(3)لوگو ں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوشش کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا (پ8،اعراف:86) ترجمہ کنزالایمان: اور ہر راستہ پر یوں نہ بیٹھو کہ راہ گیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو(ٹیڑھا راستہ ڈھونڈو)

(4) قوم کے سر داروں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بے ادبی کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَاۤ8، الاعراف: 88) ترجمہ کنزالایمان: اس کی قوم کے متکبر سردار بولے اے شعیب قسم ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھ والے مسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔

(5)مدین کے راستے میں بیٹھ کر اس کے بعض لوگ قافلوں اور مسافروں پر ڈکیٹیاں ڈالتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا -ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہر راستہ پر یوں نہ بیٹھو کہ راہ گیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو(ٹیڑھا راستہ ڈھونڈو) (پ8، الاعراف: 86)

پچھلی امتوں کے ہلاک ہونے کے واقعات قرآن مجید میں اس لئے بیان کیے گئے ہیں تاکہ ہم ان واقعات سے عبرت لیں اور اپنے اعمال و معاملات کو اسلام کی روشنی سے روشن کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کی نا فرمانی سے اور رسول کی بے ادبی سےمحفوظ فرمائے اور ہمیں شریعت کے احکامات پر عمل کرنے ، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری والی زندگی اور ایمان پر موت نصیب فرمائے۔


مؤلف:ماجد

Tue, 7 Sep , 2021
3 years ago

حضرت شعیب علیہ السلام جس بستی میں مبعوث ہوئے اس قبیلے یا اس بستی کا نام مدین تھا یہ ایک مشہور شہر تھا جو آج کل اردن (Jordan)میں واقع ہے۔ شعیب علیہ سلام کی قوم تاجر کافر اور ڈاکو قوم تھی۔ وہ درختوں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اور ڈاکے ڈالتے تھے یہ لوگ تجارتی راستوں پر کھڑے ہو جاتے اور جبرا قافلوں کو لوٹ لیتے تھے ۔ ملاوٹ ہیرا پھیری اور دھوکہ بازی میں اس قوم کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ ملاوٹ میں ایسے ماہر تھے گویا انکی گٹھی میں پڑی ہو ۔ جس طرح تمام انبیاء کرام کی ہمیشہ یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ لوگوں کو خالص اللہ کی عبادت کی طرف بلایا جائے ۔ درست اعمال اور صحیح عقائد کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے اور انہیں شرک وکفر اور دیگر گناوں سے بچنے کی تعلیم دی جائے اس کے ساتھ ساتھ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام ان خرابیوں کا بھی سامنا کرتے رہے جو ان کی قوم میں پائی جاتی تھیں۔ شعیب علیہ السلام کی قوم میں ملاوٹ کا رحجان سب سے زیادہ تھا ناپ تول میں کمی کرنا ان کے کاروبار کا حصہ اور ان کا شیوہ بن چکا تھا ۔شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایمان لانے اور ان برائیوں سے توبہ کرنے کی دعوت دینی شروع کی تمام انبیاء کرام معجزات کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے ہیں اگر معجزات نہ ہوتے تو ہم ایک سچے نبی اور نبوت کے کسی جھوٹے دعویدار میں ہر گز فرق نہ کر سکتے نہ ہی لوگوں کو یہ پہچان ہوتی کہ وہ حق پر ہیں۔ معجزہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو زمینی قانون فطرت اور اصول کے خلاف ہو مثلا مردوں کو زندہ کرنا ،چاند کے دو ٹکڑے ہونا ،لاٹھی مار کر سمندر میں راستہ بنا دینا یا لاٹھی کا سانپ بن جانا ۔ شعیب علیہ السلام نے بھی اپنے معجزے کے ذریعے اپنی قوم کو چیلنج کیا اور انہیں شرک، ناپ تول کی کمی ،ملاوٹ ،فساد اور لوٹ مار سے منع کیا کہ اے میری قوم یہ سارے کام چھوڑ دو یہ کام عذاب الہی کو دعوت دینے والے ہیں ۔ شعیب علیہ السلام کی قوم لوط علیہ السلام کی قوم کے انجام سے واقف تھی لوط علیہ السلام کی قوم کے عذاب کا قصہ ان کے یہاں مشہور تھا ۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کیا اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کے دشمن بن گئے پھر بولے اے شعیب کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کا یہ دین اور اپنے معبود چھوڑ دیں ۔ جس طرح ہمارے یہاں ہر قسم کا فتنہ فساد اور برائیاں پائی جاتی ہیں کچھ یہی حال شعیب علیہ السلام کی قوم کا بھی تھا شعیب علیہ السلام نے بار بار انہیں مخاطب کر کے فرمایا اے میری قوم میری خلاف تمہاری یہ ضد اس بات کا باعث نہ بن جائے کہ تمہیں بھی ویسا ہی معاملہ پیش آ جائے جیسا قوم نوح قوم صالح یا قوم لوط کے ساتھ پیش آیا اور قوم لوط کے انجام سے تو تم خوب واقف ہو تم اپنے رب کی طرف توجہ کرو اور توبہ کر کے اس سے معافی مانگو ۔ پہلے تو عام وعظ و نصیحت کی لیکن جب قوم نہ سمجھی تو انہیں سابقہ قوموں کی مثالیں دیں کہ کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آ جائے تاہم انہوں نے ضد نہ چھوڑی اور بولے "تو ہمارے جیسا ہی ایک انسان ہے اورجھوٹ بولتا ہے اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے" ۔یعنی وہ مسلسل اپنے کفر پر ڈٹے رہے تو شعیب علیہ السلام بولے ذرا ٹھہر جاو یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کر لے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ وہ لوگ بھی پہلی قوموں کی طرح شعیب علیہ السلام کے مقابلے پر اتر آئے اور دھمکیاں دینے لگے کہ ہم آپ اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا پھر تم واپس ہمارے مذہب میں آ جاو ۔جب قوم کے سرداروں نے آپ کو بستی سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے کہا اگر عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو میری بات مان لو میں تم سے کسی قسم کے مال و دولت کی طلب نہیں کرتا ۔

وہ مذاق اور ٹھٹا کرنے لگے کہ اے شعیب تیری اکثر باتیں تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی اور ہم اپنے اندر تجھے بہت کمزور سمجھتے ہیں اگر ہمیں تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے کب کا سنگسار کر دیتے شعیب علیہ السلام نے جواب دیا اے میری قوم تم میرے قبیلے سے تو ڈرتے ہو لیکن اللہ پاک کا تمہیں کچھ بھی ڈر نہیں ہے پھر انہیں مخاطب کیا اور کہا اے میری قوم تم سمجھنے والے نہیں ہو اب تم اپنی جگہ عمل کئے جاو میں بھی اپنی جگہ عمل کرتا ہوں ایک دن ہمارے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اور بہت جلد یہ معلوم ہو جائے گا کہ کس پر رسوا ہونے والا عذاب آئے گا اور کون جھوٹا اور سچا ہے تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے بیشک تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ آخر کار فیصلے کی گھڑی آ پہنچی اللہ پاک نے شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمائی جبکہ ان کی قوم پر عجیب و غریب اور کئی قسم اور نوعیت کے عذاب نازل ہونے شروع ہو گئے ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو دیگر قوموں کے برعکس عذاب دیا گیا۔اللہ تعالی نے ہوا کو روک دیا۔ حالت ایسی ہو گئی کہ ہوا بلکل نہ چل رہی تھی گرمی اور حرارت بہت زیادہ بڑھ گئی پھر اللہ تعالی نے بستی سے باہر ایک بادل بھیجا جس کے نیچے سایہ تھا ۔بچے بوڑھے مرد عورتیں سب اس سائے کے نیچے جگہ پانے کے لئے بھاگ نکلے تاکہ کسی طرح گرمی سے بچا جائے بالاآخر سارے بادل کے نیچے پہنچ کر بیٹھ گئے ۔جیسے ہی سب بیٹھے ان کے پاوں کے نیچے سے زمین ہلنے لگی یہاں تک کہ تباہ کن زلزلہ شروع ہو گیا سب گھٹنوں اور منہ کے بل گرتے چلے گئے اسی دوران جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور ایسی زور دار چیخ ماری کہ اس چیخ کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے سب کے سب وہیں ڈھیر ہو گئے وہ بادل سمجھ کر اس سائے کی طرف دوڑے تھے دراصل وہ سایہ ان کے لئے عذاب تھا اور انہوں نے یہی تو کہا تھا کہ اے شعیب آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دے پس اللہ تعالی نے آسمان سے ایسا ہی عذاب بھیجا اور چنگھاڑ بھیجی کہ وہ اوندھے پڑے رہ گئے جبکہ شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے ان سے دور کھڑے تھے اور وہ ان کی طرف حسرت بھری نگاوں سے دیکھ رہے تھے لیکن اب کوئی فائدہ نہ تھا کیوں کہ عذاب اتر چکا تھا اس وقت شعیب علیہ السلام منہ موڑ کر جانے لگے کہ اے میری قوم میں نے اپنے پروردگار کے احکام تم تک پہنچا دئیےتھے میں نے تمہاری خیر خواہی کی تھی پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں اس کے بعد وہ واپس اپنے شہر کی جانب لوٹ آئے کیوں کہ وہ شہر تو باقی رہ گیا تھا لیکن چلنے پھرنے والا کوئی شخص باقی نہ بچا تھا۔استغفراللہ


حضرت شعیب (علیہ السلام) تیسرے عرب نبی ہیں جن کا اسم گرامی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اور عرب انبیاء یہ تھے: حضرات ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب اور حضرت محمد (علی نبینا والہ و علیہم السلام)۔ آپ کا نام قرآن کریم میں گیارہ بار ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مَدْیَن اور اَیکہ کے لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ آپ ان لوگوں کو خدائی دین اور وحدانیت کی طرف ہدایت کریں اور بت پرستی اور برائیوں سے نجات دیں۔ مدین ایسا شہر تھا جو سرزمین معان، شام کے قریب، حجاز کے آخری حصہ میں قرار پایا تھا۔ وہاں کے لوگ بت پرستی، برائی اور لین دین میں خیانت اور دھوکہ بازی کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی اور خرید و فروخت میں خیانت کرتے حتی پیسوں کے سکوں میں سونا چاندی کو کم کرنا، ان میں عام تھا اور دنیا سے محبت اور دولت اکٹھا کرنے کی وجہ سے دھوکہ اور فریب دیا کرتے تھے اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں کے عادی تھے۔ اَیکہ، مَدْیَن کے قریب آباد اور درختوں سے بھرا ہوا گاوں تھا، وہاں کے لوگ بھی مدین کے لوگوں کی طرح برائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔

اللہ تعالی نے مدین کے لوگوں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبوت کے لئے مبعوث کیا تاکہ ان کو اور ان کے آس پاس والے لوگوں کو گناہوں سے نکال کر توحید کی طرف پکاریں۔ پروردگار عالم نے سورہ ہود میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے:" وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(۸۴)وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۸۵)بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(۸۶)

ترجمہ کنزالایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کروبےشک میں تمہیں آسودہ حال(مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں (پ 12، سورہ ھود 84 تا 86)

اور سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۳۶)ترجمہ کنزالایمان: مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی اُمید رکھواور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو ۔

(پارہ 20، سورہ عنکبوت: 36)

اور نیز اصحاب الایکہ کے بارے میں سورہ شعراء میں فرمایا ہے: كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْـٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۷۶)اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۷۷)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۷۸) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۷۹)

ترجمہ کنزالایمان: بَنْ(جنگل ) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا ،جب اُن سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ،بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں ،تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (پارہ 19 ، سورہ شعراء 176 تا 179)

حضرت شعیب علیہ السلام نے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور بشارت بھی دی اور جو عذاب قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط پر آئے تھے، وہ بھی ان کو یاد دلوائے اور ان کے برے کاموں سے دستبردار ہونے کی نصیحت پر پوری کوشش کی، لیکن ان کا طغیان(ظلم و زیادتی)، کفر اور فسق ہی بڑھتا رہا۔ ان لوگوں میں سے سوائے چند افراد کے کوئی ایمان نہ لایا، بلکہ حضرت شعیب علیہ السلام کو اذیت دی، مذاق اڑایا، دھمکی دی اور دیگر افراد کو حضرت شعیب علیہ السلام کی فرمانبرداری سے منع کیا۔ جو راستہ بھی حضرت شعیب علیہ السلام پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس پر بیٹھ جاتے اور گزرنے والے لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس جانے سے ڈراتے اور جو آپ پر ایمان لائے تھے انہیں اللہ کی راہ سے منع کرتے اور اللہ کے راستے کو ٹیڑھا دکھاتے اور کوشش کرتے کہ جتنا ہوسکے لوگوں میں اِس راستے کی نفرت پھیلائیں۔ اور پھر الزام لگانا شروع کردیا، کبھی آپ کو جادوگر کہتے، کبھی كذّاب (جھوٹا) کہتے۔ انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو دھمکی دی کہ اگر آپ تبلیغ سے دستبردار نہ ہوں تو ہم آپ کو سنگسار کریں اور دوبارہ آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں شہر سے نکال دیں گے، مگر یہ کہ ہمارے بت پرستی کے دین پر آجاؤ ۔ انہوں نے اپنے اس کردار کو باقی رکھا یہاں تک کہ آپ ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور دعا کی اور اللہ تبارک و تعالی سے فتح طلب کی عرض کیا:

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(۸۹) ترجمہ کنزالایمان: " اے رب ہمارے ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر ، اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر"۔ ( الاعراف : 89 )

اس دعا کے بعد اللہ تعالی نے عذاب یوم الظلہ نازل کیا، جس دن سیاہ بادلوں نے ہر جگہ پر اندھیرا کردیا اور سیلاب بہانے والی بارش برس گئی۔ اس جھٹلانے والی قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر واقعتا سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کردو، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

قرآن کریم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل ہونے کے بارے میں فرمایا ہے: وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴)كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠(۹۵)

ترجمہ کنزالایمان: اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے شعیب اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا ،تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے،گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے ارے دور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود۔

12،ہود:94تا 95)

نتیجہ: انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام تمام تر کوشش کرتے رہے کہ اپنی قوم کی ہدایت کریں اور شرک و بت پرستی کے ذلت خیز گڑھے سے نکال کر توحید پرستی کی باعزت بلندی پر لے چلیں، لیکن کئی قوموں نے اپنے انبیاء کی نافرمانی کی اور مختلف طریقوں سے جھٹلاتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انہوں نے اپنے اختیار سے گمراہی کے اندھیروں کو ہر طرف سے اپنے اوپر یوں لپیٹ لیا کہ ہدایت کی کسی کرن کے نظر آنے کا امکان نہ رہا اور ان کے سیدھے راستے پر آنے سے ہدایت کرنے والے نبی بالکل ناامید ہوگئے تو عذاب الہی نے ان کو گرفت میں لے لیا اور غضب پروردگار نے عقاب میں جکڑ دیا۔ عذاب کی صورت اور ان کا سیاہ انجام، مستقبل میں آنے والی اقوام کے لئے درس عبرت اور نشانِ خوف بن کر رہ گیا۔


حضرت شعیب علیہ السلام کے قبیلے کا نام مدین تھا۔ مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے۔ اور اکثر مفسرین کی رائےیہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہ قوم ایک انتہائی نافرمان قوم تھی اس قوم کی نافرمانیاں مندرجہ ذیل ہیں :

( 1) کفر : یہ قوم حضرت شعیب علیہ السلام سے بغض و عداوت رکھتی، دین حق کی مخالفت کرتی، اللہ پاک سے کفر پر اسرار کرنے اور بتوں کی پوجا کرنے پر قائم رہتی اور اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ سے اعراض کرتی تھی ۔

( 2) ناپ تول میں کمی و زیادتی : کفر کے بعد مدین والوں کی سب سے بُری عادت یہ تھی کہ یہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی و زیادتی کرتے تھے کہ جب کوئی اپنی چیز انہیں بیچتا تو جتنا زیادہ ہو سکتا لے لیتے اور جب خود اپنی چیز کسی کو بیچتے تو جتنا ہوسکتا ناپ اور تول میں کمی کرتے اور یوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف رہتے۔

( 3)احمقانہ جوابات : حضرت شعیب علیہ السلام نے مدین والوں کو جب دوکاموں سے منع کیاکہ : (١) اللہ پاک کے سوا کسی اور کی عبادت مت کرواور(٢) ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ تو مدین والوں نے جواب دیا کہ ہمارے باپ دادا بھی بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے ۔ گویا کہ ان کا بتوں کی عبادت کرنا ان کے اپنے آباءو اجداد کی اندھی تقلید تھی ۔ اور دوسری بات کا جواب یہ دیا کہ ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل کریں گے ۔ گویا کہ ہم اپنے مال پر پورا اختیار رکھتے ہیں چاہے کم تولیں یا زیادہ۔

(4) حضرت شعیب علیہ السلام کی گستاخی: حضرت شعیب علیہ السلام کے منع کرنے پر مدین والوں نے آپ علیہ السلام کی سخت گستاخی کی اور اپنے خیال میں آپ علیہ السلام کو جاہل اور بیوقوف سمجھتے ہوئےطنز کے طور پر آپ علیہ السلام سے کہا کہ "تم تو بڑے عقل مند اور نیک چلن ہو ۔ "

(5) قتل کر دینے سے ڈرانا : مدین والوں کی سرکشی اس حد تک بڑھ گئی کہ حضرت شعیب علیہ السلام کو قتل کردینے اور اذیت پہنچانے سے ڈرانے لگے اور کہتے کہ اگر تمہارے قبیلے والے ہمارے دین پر ہونے کی وجہ سے ہم میں عزت دار نہ ہوتے تو ہم پتھر مار مار کر آپ کو قتل کردیتے۔یہ قوم مدین کی نافرمانیاں تھیں جس کے سبب ان پر عذاب نازل ہوا ۔

اللہ پاک ہمیں ہر طرح کی نافرمانی سے محفوظ رکھے۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم