مؤلف:ماجد

Tue, 7 Sep , 2021
2 years ago

حضرت شعیب علیہ السلام جس بستی میں مبعوث ہوئے اس قبیلے یا اس بستی کا نام مدین تھا یہ ایک مشہور شہر تھا جو آج کل اردن (Jordan)میں واقع ہے۔ شعیب علیہ سلام کی قوم تاجر کافر اور ڈاکو قوم تھی۔ وہ درختوں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اور ڈاکے ڈالتے تھے یہ لوگ تجارتی راستوں پر کھڑے ہو جاتے اور جبرا قافلوں کو لوٹ لیتے تھے ۔ ملاوٹ ہیرا پھیری اور دھوکہ بازی میں اس قوم کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ ملاوٹ میں ایسے ماہر تھے گویا انکی گٹھی میں پڑی ہو ۔ جس طرح تمام انبیاء کرام کی ہمیشہ یہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ لوگوں کو خالص اللہ کی عبادت کی طرف بلایا جائے ۔ درست اعمال اور صحیح عقائد کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے اور انہیں شرک وکفر اور دیگر گناوں سے بچنے کی تعلیم دی جائے اس کے ساتھ ساتھ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام ان خرابیوں کا بھی سامنا کرتے رہے جو ان کی قوم میں پائی جاتی تھیں۔ شعیب علیہ السلام کی قوم میں ملاوٹ کا رحجان سب سے زیادہ تھا ناپ تول میں کمی کرنا ان کے کاروبار کا حصہ اور ان کا شیوہ بن چکا تھا ۔شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایمان لانے اور ان برائیوں سے توبہ کرنے کی دعوت دینی شروع کی تمام انبیاء کرام معجزات کے ساتھ دنیا میں تشریف لائے ہیں اگر معجزات نہ ہوتے تو ہم ایک سچے نبی اور نبوت کے کسی جھوٹے دعویدار میں ہر گز فرق نہ کر سکتے نہ ہی لوگوں کو یہ پہچان ہوتی کہ وہ حق پر ہیں۔ معجزہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو زمینی قانون فطرت اور اصول کے خلاف ہو مثلا مردوں کو زندہ کرنا ،چاند کے دو ٹکڑے ہونا ،لاٹھی مار کر سمندر میں راستہ بنا دینا یا لاٹھی کا سانپ بن جانا ۔ شعیب علیہ السلام نے بھی اپنے معجزے کے ذریعے اپنی قوم کو چیلنج کیا اور انہیں شرک، ناپ تول کی کمی ،ملاوٹ ،فساد اور لوٹ مار سے منع کیا کہ اے میری قوم یہ سارے کام چھوڑ دو یہ کام عذاب الہی کو دعوت دینے والے ہیں ۔ شعیب علیہ السلام کی قوم لوط علیہ السلام کی قوم کے انجام سے واقف تھی لوط علیہ السلام کی قوم کے عذاب کا قصہ ان کے یہاں مشہور تھا ۔ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کیا اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے آپ کو جھٹلایا اور آپ کے دشمن بن گئے پھر بولے اے شعیب کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کا یہ دین اور اپنے معبود چھوڑ دیں ۔ جس طرح ہمارے یہاں ہر قسم کا فتنہ فساد اور برائیاں پائی جاتی ہیں کچھ یہی حال شعیب علیہ السلام کی قوم کا بھی تھا شعیب علیہ السلام نے بار بار انہیں مخاطب کر کے فرمایا اے میری قوم میری خلاف تمہاری یہ ضد اس بات کا باعث نہ بن جائے کہ تمہیں بھی ویسا ہی معاملہ پیش آ جائے جیسا قوم نوح قوم صالح یا قوم لوط کے ساتھ پیش آیا اور قوم لوط کے انجام سے تو تم خوب واقف ہو تم اپنے رب کی طرف توجہ کرو اور توبہ کر کے اس سے معافی مانگو ۔ پہلے تو عام وعظ و نصیحت کی لیکن جب قوم نہ سمجھی تو انہیں سابقہ قوموں کی مثالیں دیں کہ کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نہ آ جائے تاہم انہوں نے ضد نہ چھوڑی اور بولے "تو ہمارے جیسا ہی ایک انسان ہے اورجھوٹ بولتا ہے اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے" ۔یعنی وہ مسلسل اپنے کفر پر ڈٹے رہے تو شعیب علیہ السلام بولے ذرا ٹھہر جاو یہاں تک کہ ہمارے درمیان اللہ فیصلہ کر لے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ وہ لوگ بھی پہلی قوموں کی طرح شعیب علیہ السلام کے مقابلے پر اتر آئے اور دھمکیاں دینے لگے کہ ہم آپ اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا پھر تم واپس ہمارے مذہب میں آ جاو ۔جب قوم کے سرداروں نے آپ کو بستی سے نکالنے کا فیصلہ کیا تو آپ نے کہا اگر عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو میری بات مان لو میں تم سے کسی قسم کے مال و دولت کی طلب نہیں کرتا ۔

وہ مذاق اور ٹھٹا کرنے لگے کہ اے شعیب تیری اکثر باتیں تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی اور ہم اپنے اندر تجھے بہت کمزور سمجھتے ہیں اگر ہمیں تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے کب کا سنگسار کر دیتے شعیب علیہ السلام نے جواب دیا اے میری قوم تم میرے قبیلے سے تو ڈرتے ہو لیکن اللہ پاک کا تمہیں کچھ بھی ڈر نہیں ہے پھر انہیں مخاطب کیا اور کہا اے میری قوم تم سمجھنے والے نہیں ہو اب تم اپنی جگہ عمل کئے جاو میں بھی اپنی جگہ عمل کرتا ہوں ایک دن ہمارے درمیان فیصلہ ہو جائے گا اور بہت جلد یہ معلوم ہو جائے گا کہ کس پر رسوا ہونے والا عذاب آئے گا اور کون جھوٹا اور سچا ہے تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے بیشک تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔ آخر کار فیصلے کی گھڑی آ پہنچی اللہ پاک نے شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمائی جبکہ ان کی قوم پر عجیب و غریب اور کئی قسم اور نوعیت کے عذاب نازل ہونے شروع ہو گئے ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو دیگر قوموں کے برعکس عذاب دیا گیا۔اللہ تعالی نے ہوا کو روک دیا۔ حالت ایسی ہو گئی کہ ہوا بلکل نہ چل رہی تھی گرمی اور حرارت بہت زیادہ بڑھ گئی پھر اللہ تعالی نے بستی سے باہر ایک بادل بھیجا جس کے نیچے سایہ تھا ۔بچے بوڑھے مرد عورتیں سب اس سائے کے نیچے جگہ پانے کے لئے بھاگ نکلے تاکہ کسی طرح گرمی سے بچا جائے بالاآخر سارے بادل کے نیچے پہنچ کر بیٹھ گئے ۔جیسے ہی سب بیٹھے ان کے پاوں کے نیچے سے زمین ہلنے لگی یہاں تک کہ تباہ کن زلزلہ شروع ہو گیا سب گھٹنوں اور منہ کے بل گرتے چلے گئے اسی دوران جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور ایسی زور دار چیخ ماری کہ اس چیخ کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے سب کے سب وہیں ڈھیر ہو گئے وہ بادل سمجھ کر اس سائے کی طرف دوڑے تھے دراصل وہ سایہ ان کے لئے عذاب تھا اور انہوں نے یہی تو کہا تھا کہ اے شعیب آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دے پس اللہ تعالی نے آسمان سے ایسا ہی عذاب بھیجا اور چنگھاڑ بھیجی کہ وہ اوندھے پڑے رہ گئے جبکہ شعیب علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والے ان سے دور کھڑے تھے اور وہ ان کی طرف حسرت بھری نگاوں سے دیکھ رہے تھے لیکن اب کوئی فائدہ نہ تھا کیوں کہ عذاب اتر چکا تھا اس وقت شعیب علیہ السلام منہ موڑ کر جانے لگے کہ اے میری قوم میں نے اپنے پروردگار کے احکام تم تک پہنچا دئیےتھے میں نے تمہاری خیر خواہی کی تھی پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں اس کے بعد وہ واپس اپنے شہر کی جانب لوٹ آئے کیوں کہ وہ شہر تو باقی رہ گیا تھا لیکن چلنے پھرنے والا کوئی شخص باقی نہ بچا تھا۔استغفراللہ