مختصر تعارف:

"اہلِ مدین عرب تھے"نسل کے لحاظ سے اہلِ مدین عرب تھے، جو اپنے شہر "مدین" میں رہائش پذیر تھے اور اطراف شام میں"ارض معان" کے قریب اور قومِ لوط کے بحیرہ کے بھی قریب تھا اور قومِ لوط کے بحیرہ کے قریب "ارضِ حجاز" سے متصل تھا، یہ لوگ قومِ لوط کے بعد قریب کے زمانہ میں ہوئے ہیں، مدین" شہر قبیلہ" کے نام سے معروف تھا اور وہ نبی"مدین بن مدیان بن ابراہیم الخلیل" ہیں۔

حضرت شعیب علیہ السلام کا سلسلہ نسب:

وہ "ابن میکیل بن شجن" ہیں، محمد بن اسحاق نے اس کا تذکرہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں، انہیں "سریانی" زبان میں"یتر ون" کہا جاتا ہے، لیکن یہ بات محل نظر ہے اور بعض اور بعض نے کہا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب یوں ہے کہ"شعیب بن یشخر بن لاوی بن یعقوب" اور بعض نے اس طرح بیان کیا ہے کہ "شعیب بن نویب بن عیفا بن مدین بن ابراہیم علیہ السلام" ہے اور ان کے نسب کے بارے میں اور بھی کئی اقوال ہیں، جیسے بعض نے اس انداز سے ذکر کیا ہے"شعیب بن صیفور بن عیفا بن ثابت بن مدین بن ابراہیم علیہ السلام"۔

قوم کا پیشہ:

یہ لوگ "ناپ تول" والے سودے کا کاروبار کیا کرتے تھے۔

حضرت شعیب کی قوم کی نافرمانیاں:

1۔ناپ تول میں کمی کرنا:

اس کے بارے میں ارشادِ رب العلمین ہے:

وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۸۵) بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(۸۶)

اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرواللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں ۔"(پارہ12، سورہ ھود، آیت84۔ 85)(تفسیر صراط الجنان)

بقیت اللہ:

اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے، یعنی حرام مال ترک کرنے کے بعد جس قدر حلال مال بچے، وہی تمہارے لئے بہتر ہے، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:"اس کا معنی یہ ہے کہ پورا تولنے اور ناپنے کے بعد جو بچے، وہ بہتر ہے"، ان کے علاوہ اور بھی مفسرین نے معنی بیان فرمائے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ حلال میں برکت ہے اور حرام میں بے برکتی، نیز حلال کی تھوڑی روزی، حرام کی زیادہ روزی سے بہتر ہے۔(تفسیر صراط الجنان)

2۔حضرت شعیب کا حکم نہ ماننا:

جس کا ذکر اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے:

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(۸۴)

ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بےشک میں تمہیں آسودہ حال(مالدار وخوشحال) دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے (پارہ 12، ھود: 85، 84)(تفسیر صراط الجنان، سورہ ھود، آیت84)

حضرت شعیب نے مدین والوں سے کہا:اے میری قوم!اللہ پاک کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں، فرمایا کہ"ناپ تول میں کمی نہ کرو" لیکن مدین والوں نے آپ کے حکم پر عمل نہ کیا۔

3۔اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار:

جس کا ذکر قرآن پاک میں بیان کیا گیا ہے:

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ-اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(۸۷)

ترجمہ کنز الایمان:" بولے اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چاہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑےعقل مند نیک چلن ہو۔"( پارہ 12، سورہ ھود، آیت87)

(تفسیر صراط الجنان، ترجمہ کنزالعرفان)

حضرت شعیب نے مدین والوں کو دو باتوں کا حکم دیا تھا،1۔اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کریں اور اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کریں، 2۔ناپ تول میں کمی نہ کریں، قوم نے ان باتوں کا جواب اس طرح دیا کہ ہم ان خداؤں کی عبادت کرنا چھوڑ دیں، جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے اور دوسرا کہ ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں، چاہے کم نا پیں کم تولیں، اس آیت میں انہوں نے اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار کیا اور بُت پرستی پر اپنے آباؤ اجداد کی تقلید میں لگے رہے۔