انسان کی فطرت ہے کہ حکایات و واقعات کے ضمن میں کی گئی نصیحتوں کو وہ  جلدی قبول کرتا ہے، قرآن پاک نے بھی کئی گزشتہ قوموں کی نافرمانیوں اور بُرے انجام کے واقعات بیان فرما کر ہمیں خبردار کیا ہے کہ ان جیسی نافرمانیوں کا اِرتکاب تم ہرگز نہ کرنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی ان کی طرح عذاب الہی میں گرفتار کر دیئے جاؤ۔

ان قوموں میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم بھی ہے، حضرت شعیب علیہ السلام کو دو قوموں کی طرف مبعوث کیا گیا۔ 1۔اہلِ مدین، 2۔اصحاب الایکہ

ایکہ مدین کے قریب ہی سر سبز جنگلوں اور مرغزاروں کے درمیان موجود ایک شہر تھا، یہ دونوں قومیں تجارت پیشہ تھیں اور دونوں ایک ہی طرح کی برائیوں میں مبتلا تھیں۔(سیرت الانبیاء، مطبوعہ مکتبہ المدینہ، صفحہ 521، 505 ، کچھ ترمیم کے ساتھ)

بالآخریہ دونوں قو میں بھی قہرِ الٰہی کا شکار ہو کر قیامت تک کے لئے نشانِ عبرت بنا دی گئیں، ان میں پائی جانے والی چند برائیاں درج ذیل ہیں:

1۔اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار اور بتوں کی پوجا کرنا۔

2۔نعمتوں کی ناشکری کرنا۔

3۔ناپ تول میں کمی کرنا۔

4۔لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا۔

5۔قتل و غارت گری وغیرہ کے ذریعے زمین میں فساد پھیلانا۔

6۔ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹ لینا۔

7۔راستوں میں اس لئے بیٹھنا، تا کہ لوگوں کو اذیت دیں۔

8۔جس چیز کی طرف دیکھنا حلال نہیں، اسے دیکھنا۔

9۔غریبوں پر ظلم کرنا۔

10۔مسلمانوں کا مذاق اڑانا، نماز پڑھنے والوں اور اہلِ علم پر طنز کرنا۔

11۔مال ضائع کرنا۔

12۔غربت کی وجہ سے عار دلانا۔(سیرت الانبیاء، مطبوعہ مکتبہ المدینہ، صفحہ 507،508، کچھ ترمیم کے ساتھ)

آئیے اب ایک نظر اپنے معاشرے پر ڈالتے ہیں، وہ کونسی بُرائی ہے جو آج ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جارہی، وہ کون سا گناہ ہے، جو آج بظاہر مسلمان کہلانے والے بھی بے باکی کے ساتھ کرتے نظر نہیں آتے، افسوس! ہم قران پڑھتے تو ہیں، لیکن ان واقعات سے عبرت حاصل نہیں کرتے، ہم نے قرآن کو اپنے گھر کی اَلماریوں کی زینت تو بنا رکھا ہے، لیکن اپنے دِلوں کو نورِ قرآن سے مُزیّن کرنا بھول گئے۔

درسِ قرآن گر ہم نے نہ بھلایا ہوتا

یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا