حضرت شعیب علیہ السلام کی
قوم کی نا فرمانیاں از بنت عبد
الستار بلدیہ کراچی
شعیب علیہ السلام کی قوم کی نا فرمانیاں
الحمدللہ ہم مسلمان ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے
آخری نبی ہیں ۔ جو ہمارے لیے اللہ کی آخری کتاب لے کر تشریف لائے۔ جس میں از اول تا آخر ہرشے کا بیان موجود ہے ۔ اپنی
برگزیدہ کتاب میں اللہ پاک نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ وہیں نافرمان
بندوں کو ڈرانے کے لئے گزشتہ اقوام پر نازل کیے جانے والے عذابوں کا تذکرہ بھی موجود
ہے انہی میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ہے جو مدین کہلاتی تھی۔ اور اس بستی کا نام بھی مدین تھا ۔ اس بستی کا نام مدین
اس لیے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے ایک بیٹے مدین کی اولاد
میں سے تھے۔
قرآن پاک کی سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 85 میں ارشاد باری ہے
:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا ۔
انہوں نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اللہ کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئ۔تو ناپ
اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو۔ اور زمین میں اس کی
اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ ۔کہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔حضرت شعیب عليه
السلام کی قوم میں شرک کے علاوہ جوگناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا
ہے جب کوئی شخص ان کے پاس کوئی چیز بیچنے آتا تو ان کی كوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیز كو جتنا زیارہ
لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو کوئی چیز دیتے تو ناپ اور تول میں کمی کرجاتے
اسطرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے مصروف
تھے. اسی لیے حضرت شعیب علیه السلام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا
" ناپ تول میں کمی نہ کرو اس کے بعد فرمایا۔ بے شک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا
ہوں۔ اور ایسے حال میں آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے
مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے (تفسیر صراط الجنان)
فی زمانہ بھی بہت سارے لوگ اس قبیح فعل میں مبتلا نظر آتے ہیں
۔ خصوصاً تاجر برادری کے لوگ ان افعال کو تجارت کے اعلی گر سمجھتے ہیں ان کی عقل ناقص کے مطابق جن تاجروں میں یہ اعلی
گر نہ ہوں وہ تجارت میں کامیابی حاصل کر ہی نہیں سکتے ۔کبھی ترازو کے
باٹوں میں کمی بیشی کی جاتی ہے تو کبھی وزن
ناپنے کے اسکیل میں گڑ بڑ کی جاتی ہے ۔ کہیں گرم مسالے کو گیلی بوری کے اندر رکھ کر
اسکا وزن بڑھا دیا جاتا ہے تو کہیں مہنگی مصنوعات
کے اندر سستی مصنوعات کی آمیزش کے ذریعے اس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ناپ میں کمی اس
طرح کی جاتی ہے کہ پورا سوٹ کہہ کر جو کپڑا دیا جاتا ہے گھر آ کر کھولیں تو پورا سوٹ
بن ہی نہیں پاتا۔اسی طرح پیٹرول پمپ پر بھی
جدید طریقوں سے پورے پیسے لے کر پیٹرول کم
کردیا جاتا ہے غرض شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب جس گناه کی وجہ سے آیا آج ہماری
قوم میں بھی یہ گناہ تیزی سے سرایت کرتا نظر آرہا ہے ۔ اس پر تماشا یہ ہے کہ اگر کوئی
امت کی خیرخواہی کی نیت سے اسطرح توجہ دلاۓ تو جواب ملتا
ہے « یا شیخ اپنی اپنی دیکھ "
اے کاش ہم قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر پڑھ کر گزشتہ اقوام کے
احوال سے سبق حاصل کرتے۔ اللہ پاک دنیا و آخرت میں ہمیں اپنے غضب سے محفوظ فرمائے۔
(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)