اللہ پاک نے قومِ لوط کے واقعہ کے بعد سورۂ اعراف میں فرمایا:حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا:"اے قوم!دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل روشن پر ہوں اور اس نے وہاں سے مجھے نیک روزی دی ہو(تو کیا میں اس کے خلاف کروں گا) اور میں نہیں چاہتا کہ جس اَمر سے  میں تمہیں منع کروںاور خود اس کو کرنے لگون، میں تو جہاں تک مجھ سے ہوسکے (تمہاری معاملات کی اصلاح چاہتا ہوں اور اس بارے میں)مجھے توفیق کا ملنا خداہی کے فضل سے ہے، میں اسی پر بھر وسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اے میری قوم میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرا دے کہ جیسی نوح علیہ السلام کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی، ویسی مصیبت تم پر واقع ہو پھر(انہوں نے کہا اے شعیب علیہ السلام تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی بہن نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر(کسی طرح) غالب نہیں ہو، حضرت شعیب نے فرمایا:(اے قوم! کیا میرے بھائی بندوں کا دباؤ تم پر خدا سے زیادہ اور اس کو ہم نے پیٹھ پیچھے ڈال رکھا، میرا ربّ تو تمہارے سب اعمال پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور اے میری قوم اپنی جگہ کام کئے جاؤ، اپنی جگہ کام کئے جاتا ہوں، تم کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ رُسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے اور تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں اور جب میرا حکم آ پہنچا تو ہم نے شعیب کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، ان کو تواپنی رحمت سے بچا لیا اور جو ظالم تھے ان کو پچھاڑنے آدبوچا تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے، گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔