قوم شعیب کی نافرمانیاں

بحیرہ احمر کے کنارے ملک اردن کے قریب مدین کے رہنے والوں کو اللہ پاک نے بڑی نعمتیں عطافرمائی تھیں ۔ اللہ پاک نے انہیں گھنے باغات اور جنگلات عطا فرمائےتھے اسی لئے یہ قوم "أصحاب الایکہ "( جنگل والے ) بھی کہلاتی ہے ۔ اللہ پاک نے ان کی تجارت میں بھی برکت رکھی تھی۔ لیکن اس قوم نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے بہت زیادہ ناشکری کی۔ نفع ملنے کے باوجود ناپ تول میں بے ایمانی کرنے لگے ۔ سامان تول کر دیتے ہوئے کمی کرتے اور لیتے ہوئے حق سے زیادہ لینے کی کو شش کر تے ۔ اس کے علاوہ یہ لوگ تجارتی قافلوں کو لوٹ کر ان کامال بھی چھین لیتے تھے ۔اللہ نے ان لوگوں کو سید ھاراستہ دکھانے کے لئے انہی میں سے حضرت شعیب علیہ السلامکو رسول بنایا۔ حضرت شعیب علیہ السلامکو اپنی قوم کی ان نافرمانیوں پر شدید غم تھا۔ لیکن قوم نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا ہم تو سمجھتے تھے کہ تم بڑے سمجھ دار ہو۔ کیا تمہاری نماز تم کو یہی سکھاتی ہے کہ ہم ان بتوں کی پوجا چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ؟ کیا ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی بھی نہ چلائیں؟ حضرت شعیب نے قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا ۔ آپ علیہ السلامنے ان سے فرمایا کہیں ایسانہ ہو کہ تمہارے برے اعمال کی وجہ سے تم پر بھی ہولناک عذاب آجائے۔ یاد رکھو تم سے پہلے قوم نوح قوم ثمود اور قوم لوط پر آیا تھا۔ قوم نے کہا کہ اگر ہمیں تمہارے قبیلہ کا خیال نہ ہو تا تو تم کو ہلاک کر دیتے ۔ حضرت شعیب علیہ السلامنے فرمایا کہ تمہیں میرے قبیلہ کا اللہ سے زیادہ لحاظ ہے اور تم اللہ کو بالکل بھلا چکے ہو۔یہ بگڑی ہوئی قوم جب باز نہ آئی تو اللہ نے عذاب کو ( بادل کے سایہ کی شکل میں ان کی طرف بھیجا۔ لوگ اسے اپنی طرف آتاہوادیکھ کر خوشیاں منانے لگے ۔ وہ خوش تھے کہ اب بارش ہو گی ، گرمی دور ہو جائے گی باغات ہرے بھرے ہو جائیں گے ۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ( بادل کا سایہ اللہ کی رحمت نہیں بلکہ اس کا عذاب لارہا ہے ۔ چنانچہ ایک زور دار چیخ اور زلزلہ نے ان نافرمانوں کو ہلاک کر دیا۔ ان کی بستیاں ایسے ہو گئیں جیسے کبھی یہ لوگ یہاں ہی نہ تھے۔ اللہ نے حضرت شعیب اور ایمان لانے والوں کو اس عذاب سے بچالیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ

ا۔ حضرت شعیب علیہ السلامنے اپنی قوم کو صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔( پ12، ہود 93 تا95، پ19، الشعراء: 189) ہمیں گناہوں پر اللہ سے معافی مانگنی چاہیئے اور اس کی نافرمانی چھوڑ کر فرماں برداری اختیار کرنی چاہیے۔ (پ12، ہود:90 ) ناپ تول میں کمی کر نا اور لوگوں کو نقصان پہنچانا اللہ کو پسند نہیں ہے ۔ (پ8، الاعراف:85، پ12، ہود:85،84 ) ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی چیز میں کم کر کے دینے سے زمین میں فساد اور بگاڑ پید اہو تا ہے۔ (پ8، الاعراف: 85، پ12،ہود :85، پ19، الشعراء:181 تا 183 ) 4۔ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا اور دین میں ٹیڑھ تلاش کرنا گناہ کے کام ہیں۔ (پ8،الاعراف:82 ) 5- رسولوں کی بات نہیں ماننے والے نقصان اٹھاتے ہیں۔ (پ8-9،الاعراف:90،82 )اہل ایمان کو مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ اللہ فرماں بر داروں اور نافرمانوں کے در میان فیصلہ فرمادیتا ہے۔ (پ8-9،الاعراف:89،87 ، پ12،ہود:92، 93) برے لوگ چاہتے ہیں کہ اچھے لوگ بھی برائی اختیار کر لیں۔ ہمیں برے لوگوں کی بات نہیں ماننی چاہئے (پ9،الاعراف:89،88 ) مال ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے ۔ اسے اللہ کی مرضی کے مطابق کمانا اور خرچ کرنا چاہیے۔ (پ12،ہود:88،87 ) ۔ ہمیں نافرمان قوموں کے برے انجام سے سبق سیکھ کر نافرمانی سے بچناچاہئے۔ (پ9،الاعراف: 92،91،پ12، ہود:95،89،پ19، الشعراء:189،190)