اللہ ربُّ العزت نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے کسی نہ کسی
نبی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، اور انبیاء
کرام علیہم السلام کی یہ ذمّہ داری ہوا کرتی تھی کہ ان بندوں کو خالص اللہ پاک کی راہ
کی طرف بلائے، مزید یہ کہ ان کی درست اعمال، صحیح عقائد، مشرقی اور ہر معاملے میں ان کی رہنمائی کریں۔
چنانچہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے قومِ مدین کی طرف حضرت
شعیب علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، تو حضرت
شعیب علیہ السّلام نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ کی طرف بلانا شروع کیا اور نیکی
کا حکم دیتے، اس کے متعلق قرآن پاک میں ربِّ
کائنات نے کچھ اس طرح ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان:"اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب
کو بھیجا اور کہا اے میری قوم! اللہ پاک کی
عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی تو
ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں کہ نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد
نہ پھیلاؤ، یہ تمہارا بھلا ہے، اگر ایمان لاؤ۔"
جب حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نیکی کی دعوت دینا شروع کی
تو ان لوگوں نے بھی پچھلی گزری ہوئی قوموں (یعنی عاد، ثمود) کی طرح اپنے نبی علیہ السلام
کو جھٹلایا اور ان کی تکذیب کی اور انہوں نے درج ذیل نافرمانیاں کیں، جن میں سے چند قابلِ ذکر ہیں:
1۔ناپ تول میں کمی کرنا، یعنی لوگوں کو چیزیں گھٹا کر دینا۔(سورۃ اعراف، ھود، آیت85)
2۔زمین انتظام کے بعد فساد و فتنہ پھیلانا۔( سورہ اعراف، آیت85)
3۔رہزنی کرنا، یعنی
تجارتی قافلوں کو لوٹنا اور
4۔ان سے جبراً(10) دسواں حصّہ وصول کرنا۔(سورہ اعراف، آیت 85، حاشیہ161)
دین کی اتباع کرنے میں لوگوں کے لئے سدِّراہ( رکاوٹ) بنتے۔
5۔کھیتیاں تباہ کرتے۔(حاشیہ)
6۔چیزوں میں ملاوٹ کرتے۔(حاشیہ)
7۔خیانت کرتے۔(حاشیہ)
منقول ہے:"حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک نے اس قوم پر
جہنم کا دروازہ کھولا اور ان پر دوزخ کی شدید گرمی بھیجی، جس سے سانس بند ہو گئے، اب نہ انہیں سایہ کام دینا تھا نہ پانی، اس حالت
میں وہ تہہ خانے میں داخل ہو، تاکہ وہاں انہیں کچھ اَمن ہو، لیکن وہاں باہر سے زیادہ گرمی تھی اور وہاں سے نکل
کر جنگل کی طرف بھاگے تو اللہ پاک نے ایک اَبر( بادل) بھیجا، جس میں نہایت سَرد اور خوشگوار ہوا تھی، اس کے سائے میں آئے اور ایک دوسرے کو پُکار پُکار
کر جمع کر لیا، جب مرد، عورتیں، بچے سب جمع ہو گئے، تو وہ بحکمِ الہی
آگ بن کر بھڑک اُٹھا اور وہ اس میں جَل گئے، جیسے پھاڑ (یعنی بھٹی) میں کوئی چیز بھُن جاتی ہے۔
ترجمہ کنزالایمان:"ان تو انہیں زلزلے نے آ لیا تو صبح کے
وقت گھروں میں اُوندھے پڑے رہ گئے۔"( سورہ اعراف،آیت91، حاشیہ 173)
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ پاک نے حضرت شعیب
علیہ السلام کو اصحابِ ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا تھا اور اہلِ مدین کی طرف بھی، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ:"ایکہ والوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔"(سورۃ الشعراء، پارہ
19، آیت 176)
بے شک ایکہ والے بھی
بڑے ظالم تھے۔(سورۃ الحجر، پارہ 15، آیت78)
بہرحال اہلِ اصحابِ ایکہ کو تو اَبر( بادل) نے ہلاک کیا اور
اہلِ مدین زلزلہ سے گرفتار ہوئے، اور خوفناک، ہولناک آواز سے ہلاک ہوگئے۔(حاشیہ 173)
اللہ کریم سے دعا ہے، قومِ مدین میں پائی جانے والی تمام برائیاں ہمارے معاشرے
میں رائج ہیں، اللہ پاک ہمیں ان سے بچتے ہوئے، سیدھے راستے پر چلنے اور نیکی کا حکم دینے کی توفیق
عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
رضا نفسِ دشمن ہے دم میں نہ آنا
کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے