مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 118، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 691،ملتقطاً)قرآن پاک میں سیدنا شعیب علیہ السلامکی قوم کی جن نافرمانیوں کا تذکرہ ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں۔۔

• شرک ، وہ بتوں کی پوجا کرتے ، ان کے پاس بت پرستی کرنے کی دلیل اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلیدتھی۔

• ناپ تول میں کمی کرنا

جب ان کو سیدنا شعیب علیہ السلامنے روکا تو قوم کے لوگ کہنے لگےکیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں؟

ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں ، چاہے کم ناپیں چاہے کم تولیں۔

• لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا

مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے۔

•لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا اور ایمان لانے سے روکنا

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سرداروں ایمان لانے والوں کی دین میں مضبوطی دیکھی تو انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں اور لوگ بھی ان پر ایمان نہ لے آئیں چنانچہ جو لوگ ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے انہیں معاشی بدحالی سے ڈراتے ہوئے کہنے لگے کہ’’ اگر تم نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ایمان لاتے ہوئے ان کے دین کی پیروی کی اور اپناآبائی دین و مذہب اور کم تولنا ،کم ناپنا وغیرہ جو کام تم کرتے ہو اسے چھوڑ دیا تو سن لو! تم ضرور نقصان میں رہو گے کیونکہ اس طرح تمہیں تجارتی لین دین میں پورا تولنا پڑے گا۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الآیۃ: 90، 2 / 276)

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ اس خوف کی وجہ سے آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے کہ اگر انہوں نے ان پر ایمان لا کر ان کی شریعت پر عمل شروع کر دیا تو وہ معاشی بد حالی کی دلدل میں پھنس جائیں گے ، نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا کہ جنہوں نے اللہ پاک کے نبی پر ایمان لا کر ان کی شریعت کی پیروی کی وہ تو دین و دنیا دونوں میں کامیاب ہو گئے اور جنہوں نے اللہ پاک کے نبی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلایا اورآپ کی نافرمانی کی ،ان کی دنیا تو برباد ہوئی، اس کے ساتھ آخرت بھی برباد ہو گئی۔ لہٰذاا نقصان تو ان لوگوں نے اٹھایا ہے جو سر کش اور نافرمان تھے نہ کہ انہوں نے جو تابع اور فرماں بردار تھے۔

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے سرداروں کی یہ روش ان کی بیمار ذہنیت کا پتا دیتی ہے کہ احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی جبکہ راہِ راست پر چلنے میں اپنی ہلاکت اور دینِ حق پر ایمان لانے میں انہیں مُہِیب خطرات نظر آنے لگے اور انہوں نے دوسروں کو بھی دینِ حق سے دور کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی ہمارے معاشرے میں بھی کوئی کمی نہیں ، اسلام کے اصول و قوانین کو اہمیت نہ دینے والوں ، شریعت کے قوانین میں تبدیلی کی رٹ لگانے والوں ، زکوٰۃ کو ٹیکس تصور کرنے والوں ، رشوت کو اپنا حق سمجھنے والوں ، ناپ تول میں کمی کرنے والوں ، پردے کو عورت کی آزادی کے خلاف قرار دینے والوں ، اسلامی سزاؤں کو ظلم و بربریت شمار کرنے والوں کو چاہئے کہ اہلِ مدین کے حالات اور ان کے انجام پر غور کریں۔(مدارک، الاعراف، تحت الآیۃ: 92، ص375، ملخصاً)

•زمین میں فساد کرنا اور قوم کے سردار وں کاحضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بے ادبی کرنا

قوم کے سردار قوم کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں اگر یہ درست ہو جائیں تو قوم کواعلیٰ درجے پر پہنچا دیتے ہیں اور بگڑ جائیں تو ذلت کی گہری کھائیوں میں گرا دیتے ہیں۔ ہم میں سے جس کو بھی دوسروں پر نگران بنایا گیا ہے یا جس کی بھی پیروی کی جاتی ہے اس کو نہایت محتاط رہنا چاہیے۔

• اللہ پاک کی نعمتوں کی ناشکری کرنا

سیدنا شعیب علیہ السلامنے اپنی قوم سے فرمایا ’’بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کردیئے جاؤ.اللہ پاک ہمیں گزشتہ قوموں کے واقعات سے عبرت لیتے ہوئے اپنا حال درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين