حضرت شعیب علیہ السلامکا نام و لقب

آپ علیہ السلامکا مبارک نام شعیب ہے اور حُسنِ بیان کی وجہ سے آپ کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ السلامکا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف اور مہربانی اور نرمی کو بطور خاص پیشِ نظر رکھا۔

انعامات الہی:

نبوت و رسالت وہ انعام ِالہی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اللہ پاک نے حضرتِ شعیب علیہ السلامکو اس عظیم انعام سےمشرف فرمایا، معجزات سے نوازا اور اپنی رحمت سے آپ علیہ السلاماور اہل ایمان کو دنیوی عذاب سے محفوظ رکھا۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السلامکو دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا، (1) اہلِ مدین (2) اصحابُ الایکہ۔

آپ علیہ السلامکے معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلامنے حضرت موسیٰ علیہ السلامکو بکریاں تحفے میں دے کر فرمایا کہ یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں گی چنانچہ جیسے آپ نے فرمایا تھا ویسے ہی ہوا۔ قرآن کریم میں آپ علیہ السلامکی دو شہزادیوں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سے ایک کا نکاح حضرت موسیٰ علیہ السلامکے ساتھ ہوا۔ (کتاب سیرت الانبیاء ص 505)

اہلِ مدین کا تعارف

مدین حضرت شعیب علیہ السلامکی بستی کا نام تھا اور بستی کا نام مدین اس لیے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابرہیم علیہ السلامکی اولاد سے ایک بیٹے کی اولاد سے تھے۔ اہل مدین بہت سے گناہوں اور جرائم میں مبتلا تھے جس میں سے چند یہ ہیں :

(1) بتوں کی پوجا کرنا (2) ناپ تول میں کمی کرنا (3) نا شکری کرنا (4) لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا (5) مسلمانوں کا مذاق اڑانا۔ (کتاب سیرت الانبیاء ص 507)۔

قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرا کر نصیحت:

وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(۸۹) وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(۹۰)

ترجمہ کنزالایمان: اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموادے(برا کام کروا دے) کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بےشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔ (پ12،سورہ ہود، آیت 89، 90)

قوم کی ہٹ دھرمی اور دھمکی:

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًاۚ-وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ٘-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ(۹۱)

ترجمہ کنزالایمان: بولے اے شعیب ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بےشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور کچھ ہماری نگاہ میں تمہیں عزت نہیں ( پ12،سورہ ہود: 91)

حضرت شعیب علیہ السلامکی دعا:

جب حضرت شعیب علیہ السلامکو قوم کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ علیہ السلامنے یوں دعا فرمائی

رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(۸۹)

ترجمہ کنزالایمان: اے رب ہمارے ہم میں اور ہماری قوم میں حق فیصلہ کر اور تیرا فیصلہ سب سے بہتر۔ (پ9، اعراف آیت 89)

اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلامکی دعا قبول فرمائی۔

سورۃ العنکبوت کی آیت 36,37 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلامکو جھٹلایا اور اپنے فساد سے باز نہ آئے توانہیں زلزلے کی صورت میں اللہ پاک کے عذاب نے آ لیا یہاں تک کہ ان کے گھر ا ن کے اوپر گر گئے اور صبح تک انکا حال یہ ہو گیا کہ وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بَل مردے بے جان پڑے رہ گئے۔

تفسیر صراط الجنان

اصحابِ الایکہ کو تبلیغ اور نزولِ عذاب:

مدین کے قریب ہی سرسبز جنگلوں اور مَرغزاروں کے درمیان ایک دوسرا شہر موجود تھا، یہاں رہنے والوں کا تذکرہ قرآن مجید میں اصحابِ اَیکہ یعنی جنگل والوں کے نام سے کیا گیا ہے۔

حضرت شعیب علیہ السلام اپنی اس قوم کو بھی نرمی کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتے اورفرماتے کہ ناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہو جاؤ، اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اس پر آپ کی قوم نے کہا کہ ہم آپ کو جھوٹوں میں سے سمجھتے ہیں۔ تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گِرا دو اگر تم سچے ہو اور آپ علیہ السلامکو جھٹلا دیا۔

پھر ان پر عذاب الہٰی نازل ہو گیا اور ان لوگوں پر جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جس سے پوری آبادی میں شدید گرمی اور لو کی حرارت و تپش پھیل گئی اور شہر والوں کا دَم گھٹنے لگا۔ پھر اللہ پاک نے بادل کا ایک ٹکڑا بھیجا جو شامیانے کی طرح پوری بستی پر چھا گیا اور اس کے اندر ٹھنڈک اور فرحت بخش ہواتھی۔ یہ دیکھ کر سب گھروں سے نکل کر اس بادل کے شامیانے میں آ گئے تو اچانک زلزلہ آیا اور اس بادل سے آگ برسنے لگی جس میں سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔

ان لوگوں میں اپنی سرکشی سے کہا تھا کہ "اے شعیب! ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گِرا دو" اس لئے وہی عذاب اس صورت میں اُس سرکش قوم ہر آگیا اور سب کے سب جَل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔(کتاب سیرت الانبیاء، ص 523)