عرب شریف کے مشہور شہر مدین کے قریب ایک گاؤں/جنگل تھا،  جس میں درخت اور جھاڑیاں بکثرت تھیں، اس جنگل میں رہنے والوں کوا صحابِ ایکہ یعنی جنگل والے کہا جاتا تھا۔ اصحابِ ایکہ کی برائیاں:

ناپ تول میں کمی کرنا، لوگوں کو ان کی چیزیں پوری پوری واپس کرنے کے بجائے کم کر کے دیتے، ڈاکہ ڈالتے اور لوٹ مار کرتے، کھیتیاں وغیرہ تباہ کر دیتے، وغیرہ وغیرہ۔

ایمان کی دعوت کے لئے اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کو لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، چونکہ ان میں سے اکثر لوگ مسلمان نہیں تھے، اس لئےآپ علیہ السلام نے ان لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دی، اللہ پاک کے عذاب سے ڈرایا، اپنے نبی ہونے کا یقین دلایا، اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیتے ہوئے اوپر بیان کردہ نصیحتوں سے بچنے کی۔تفتیش

ماننے سے انکار:

جنگل والوں نے آپ علیہ السلام کی نصیحت سن کر کہا: اے شعیب! تم پر جادو ہوا ہے، تم کوئی فرشتے نہیں، بلکہ ہمارے جیسے ہی آدمی ہو اور تم نے جو نبی ہونے کا دعوی کیا ہے، ہم اس میں تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں، اگر تم اپنے نبی ہونے کے دعوے میں سچے ہو تو اللہ پاک سے دعا کرو کہ وہ عذاب کی صورت میں ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کا جواب:

جنگل والوں کا یہ جواب سن کر آپ علیہ السلام نے فرما یا:اللہ پاک تمہارے اعمال بھی جانتا ہے اور جس عذاب کے تم مستحق ہو، اسے بھی جانتا ہے، اگر وہ چاہے گا تو تم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادے گا اور اگر چاہے گا تو کوئی اور عذاب نازل فرمادے گا۔

جل کر راکھ ہوگئے:

اللہ پاک کا کرنا یہ ہوا کہ جنگل والوں پر جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا گیا، جس کی وجہ سے شدید گرمی ہوگئی اور لُو چلنے لگی، جس کی وجہ سے جنگل والوں کا دم گھٹنے لگا، وہ اپنے گھروں میں قید رہنے اور پانی کا چھڑکاؤ کرتے، مگر انہیں سکون نہ ملتا، اسی حالت میں سات دن گزر گئے، اس کے بعد اللہ پاک نے ایک بادل بھیجا، جو جنگل والوں پر چھا گیا، اس بادل کی وجہ سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں، وہ گھروں سے نکل آئے اور بادل کے نیچے جمع ہونے لگے، جیسے ہی سب جمع ہوئے، زلزلہ آگیا اور بادل سے آگ برسنے لگی، جنگل والے ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جلنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کا ڈھیر بن گئے۔(صراط الجنان، جلد 7، پارہ 19، سورہ الشعراء، آیت:135، عجائب القران مع غرائب القران، صفحہ 353، جلد 4)