یادرکھئے! ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے جو ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی تقاضا کرتی ہے۔ ایک مسلمان جن باتوں کا مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے۔

پڑوسی کی اقسام: سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں: (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔ (2) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں اور (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔ مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حق ہیں: حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔ مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام۔ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے: حق پڑوس۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560) اس حدیث پاک میں غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے مشرک کے لئے بھی صرف پڑوس کے باعث حق ثابت فرمایا۔ رسول پاک ﷺ نے پڑوسی کے بہت سارے حقوق بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تو (کامل) مسلمان ہو جائے گا۔(ابن ماجہ، 4/475، حدیث: 4217)

2۔ محبوب رب ذوالجلال ﷺ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ پھرارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرو، اگر تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو، اگر محتاج ہو تو اس کی حاجت پوری کرو، اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھرسے اونچا گھر نہ بناؤ کہ اسے ہوا نہ پہنچے، اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر تم کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کو بھی کچھ بھیجو، اگر ایسا نہ کر سکو تو چھپا کر لے جاؤ اور اپنے بچوں کو بھی وہ پھل گھر سے باہر نہ لانے دو کہ پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین ہوں گے اور اپنی ہنڈیا کی خوشبو سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔ یہ فرمانے کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (شعب الایمان، 7/83،حدیث:9560)

3۔ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا جائے: حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما کی خدمت میں حاضر تھا، ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا تو آپ نے فرمایا: اے غلام! جب تو کھال اتار لے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا۔ غلام نے کہا: آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا: رَسُولُ الله ﷺ ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنادیں۔ (ترمذى، 3/379، حدیث: 1949)

4۔ سالن پکاؤ تو پڑوسی کو بھی کچھ دو: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب تم ہنڈیا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو پھر اپنے کچھ پڑوسیوں کو دیکھ کر اس میں سے کچھ ان کو دو۔ (مسلم،ص2595، حدیث: 2625)

5۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا دروازے سے کچھ دور اور بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے۔ (بخاری، 2/174، حدیث: 2595)

6۔ پڑوسی سے جھگڑا نہ کرو: خلیفہ اول امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد الرحمٰن رضی الله عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنے پڑوسی سے جھگڑ رہے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا: اپنے پڑوسی سے مت جھگڑو کیونکہ لوگ چلے جاتے ہیں جبکہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے۔(کنز العمال، 5/79، حدیث:25599)

7۔ پڑوسی کے گھر کی دیوار کے سائے کا حق: ابن مقفع کو یہ خبر ملی کہ اس کا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا جب تو میں نے اس کے گھر کے سائے کا بھی حق ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کا ثمن ادا کیا اور اس سے کہا: گھر مت بیچو۔(احیاء العلوم، 1/771)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پڑوسی کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام ہمارا کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ اسلام ہمیں ہمسایوں کے ساتھ بھی بھلائی اور حسن سلو ک کرنے کا درس دیتا ہے معاشرے میں سب سے پہلا حسن سلوک کا حق دار پڑوسی ہو تا ہے۔ قرآن کریم میں بھی پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں تاکید فرمائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ قریب کے پڑوسی سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے پڑوسی سے مراد وہ ہے جو محلے دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو۔

اب پڑوسیوں کے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں: سلام میں پہل کرے، جب مدد طلب کرے اس کی مدد کرے، جب قرض مانگے تو قرض دے، اس کی محتاجی کو دور کرے، اس کی خوشی میں شرکت کرے، جو کچھ وہ اپنے گھر میں لے جارہا ہو اس پر نظر نہ گاڑے، اپنے گھر کی چھت پر سے اس کے گھر میں مت جھانکے، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جائے، اس کے عیوب پر پردہ ڈالے، جب اسے مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کو جائے، جب خوشی پہنچے تو اسے مبارکباد دے، جب غمی پہنچے تو اس کی غمی میں شریک ہو۔ (احیاء العلوم، 2/ 772)

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھا کرتے ان کی خبر گیری فرماتے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور جاتے، اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس لوٹ جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہو کر اس کے حق میں مغفرت کی دعا فرماتے اس کے اہل خانہ کو صبر کی تلقین فرماتے اور ان کو تسلی دیا کرتے۔ (معین الا رواح، ص 88 )

پڑوسیو ں کے حقو ق کے معاملے میں ہمارے بزرگان دین کا انداز کس قدر شاندار ہوا کرتا تھا۔ اللہ کریم ہمیں پڑوسیو ں کے حقوق کو احسن انداز میں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو تکلیف دینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارا اسلام کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتے داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے پڑوسیوں سے کیسا سلوک کرنا چاہئے؟ قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ اس آیت کی تفسیر میں قریب کے ہمسائے سے مراد جس کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد جس کا گھر آپ کے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔ پڑوسیوں کے حقوق قرآن پاک کے علاوہ بہت سی احادیث میں بیان کئے گئے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:

1۔ حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم وہ مومن نہیں (تین مرتبہ اس کو دہرایا) عرض کی گئی: کون یارسول الله؟ فرمایا: وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

3۔ حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص ہانڈی پکائے تو زیادہ کرے اور پڑوسیوں کو اس میں سے کچھ دے۔ (معجم اوسط، 2/379، حدیث: 3591)

4۔ فرمان مصطفیﷺ ہے: کیا تم جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اگر وہ تم سے مدد مانگے تو اس کی مدد کرو، قرض مانگے تو قرض دو، اگر محتاج ہو تو اس کو کچھ دو، بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاوٴ۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث: 4243)

5۔ جو شخص الله اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے۔ (مسلم، ص 44، حدیث: 47) ان آیات اور احادث سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے کو تکلیف نہیں دینی چاہئے بلکہ ان کا اکرام کرنا چاہئے اور ان کے حقوق جو ہم پر ہیں ان کو پورا کرنا چاہئے۔


پڑوسی کی تعریف: جن کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو وہ پڑوسی کہلاتے ہیں۔

اللہ پاک نے جس طرح اپنے حقوق کی اور ماں باپ کے حقوق کی تعلیم فرمائی اسی طرح پڑوسیوں کے حقوق کی بھی تعلیم دی ہے، ارشادِ خداوندی ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ قریب کے ہمسایہ سے مراد وہ ہے کہ جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے۔ دور کے ہمسایہ سے مراد وہ جو محلے دار تو ہو لیکن اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو یا جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275)

پڑوسیوں کے 5 حقوق درج ذیل ہیں:

1۔ حسن سلوک: پڑوسی کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اگر ان سے کوئی غلطی ہو تو درگزر کیا جائے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 48 )

2۔ پڑوسی کا عزت و اکرام: دوسرا حق یہ ہے کہ ان کی عزت و احترام کیا جائے اگر وہ بڑے ہیں تو ان کو اپنا بزرگ خیال کریں اور کوئی ایسی بات ان سے نہ کی جائے کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ آپ ان کی عزت نہیں کرتے۔

3۔ ایذا رسانی سے پرہیز: پڑوسی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہ آپ کی ہر قسم کی تکلیفوں اور آفتوں سے محفوظ رہے۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم وہ مومن نہیں (تین مرتبہ اس جملے کو دہرایا) عرض کی گئی: کون یا رسول اللہ؟ فرمایا: وہ شخص کہ اس کا پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

4۔ ہدیہ و تحفہ دینا: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے بھی اپنی ہانڈی میں سے کچھ دے۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! جب تم سالن بناؤ تو اس میں پانی زیادہ کر دو اور اس میں سے اپنے پڑوسی کو ہدیہ بھیجو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625)

5۔ مالی خدمت: پڑوسی کا حق یہ بھی ہے کہ اگر وہ تمہاری اعانت(مدد) کا طالب ہو تو اس کا ہاتھ بٹاؤ اگر بیمار ہو جائے تو اس کی تیمارداری کی جائے اگر وہ محتاج ہو تو اس کی حاجت پوری کی جائے۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جبریل مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ عنقریب پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

ہمیں چاہیے کہ ہم ہر شخص کے ساتھ حسن سلوک کریں اور اللہ پاک نے جو حقوق ہم پر لازم کیے ہیں ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں اللہ پاک ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حدیث کی رو سے گھر کے چاروں طرف تقریبا 40 گھروں کو پڑوسی تسلیم کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ہر وہ شخص جس کے ساتھ انسان کا روزانہ واسطہ پڑتا ہے اس میں آپ کا کاروباری شریک، ہم جماعت اور اسی طرح کے دیگر افراد شامل ہوں گے۔ قرآن کریم میں اللہ پاک ہمسائے کے بارے میں یوں فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی (کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

پڑوسی کی قسمیں: (1) وہ پڑوسی جو بالکل گھر کے قریب ہو۔ سب سے اہم اس کا حق ہے۔ (2) وہ پڑوسی جس کے گھر سے گھر تو ملا ہوا نہ ہو لیکن وہ قریب ہی ہے اسی محلے اور گلی میں دو چار گھر چھوڑ کر رہتا ہے۔ (3) جو عارضی طور پر پڑوسی بن جائے گویا رفیق، ہمسفر یا ہم نشین جو برابر کی سیٹ پر ہے وہ بھی ہمارا پڑوسی ہے۔

پڑوسیوں کے حقوق:

1۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرائیل امین مجھے ہمسائے کے حق کے بارے میں اللہ کا حکم پہنچاتے رہے حتی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ عنقریب ہمسائے کو وراثت میں حصے دار بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6105)

2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے نبی مکی مدنی ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمام مخلوق اللہ پاک کی پروردہ ہے اور اللہ کو اپنی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ (مسند ابی یعلی، 3/232، حدیث: 6534)

3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

4۔ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کا احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

5۔ جب وہ (پڑوسی) بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کرو جب مر جائے تو اس کے جنازے میں جاؤ جب قرض مانگے تو قرض دو اور جب اسے کوئی خوشی پہنچے تو مبارکباد دو جب کوئی تکلیف آئے تو پردہ پوشی کرو اور اس کے گھر سے اونچی دیواریں نہ بناؤ اور اس کی ہوا نہ روکو۔ مزید فرمایا: اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے! (تین بار یہ جملہ ارشاد فرمایا) صحابہ کرام نے عرض کی! یا رسول اللہ! کون مومن نہیں ہے؟ فرمایا: جس شخص کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہیں ہے وہ مومن نہیں ہے۔(بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

ایک بزرگ کے بارے میں ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کے گھر میں چوہے آگئے تو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ چوہوں سے نجات پانے کے لیے گھر میں بلی رکھ لیں بلی گھر میں گھومے پھرے گی چوہے بھاگ جائیں گے انہوں نے ارشاد فرمایا: مشورہ تو بہت اچھا ہے بات تو بڑی اچھی ہے کہ میں بلی گھر میں رکھ لیتا ہوں تو چوہے میرے گھر سے نکل جائیں گے لیکن اس کا ایک نقصان یہ ہوگا کہ چو ہے میرے گھر سے نکلیں گے تو یہ چوہے میرے پڑوسی کے گھر میں چلے جائیں گے۔

سبحٰن اللہ کیا انداز تھا ان اللہ والوں کا خود کو تکلیف میں رکھ لیتے ہیں لیکن پڑوسی کو کبھی تکلیف نہیں دیتے۔ اللہ پاک ہمیں بھی ایسی سوچ عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ قریب کے ساتھی سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو۔ (تفسیر صراط الجنان، 2/201)

تمام انسان ایک معاشرے میں رہتے ہیں اور اس معاشرے میں انسان کی مختلف لوگوں سے یا تو قرابت داری ہوتی ہے یا دوستی یا ہمسائیگی ہوتی ہے۔ دین اسلام نے جس طرح قرابت داروں اور دوستوں کے حقوق سکھائے ہیں اسی طرح پڑوسیوں کے بھی حقوق سکھائے۔ حدیث شریف میں ہے: کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہوجائے۔ (مسند براز، 5/392، حدیث: 2026) دین اسلام اس قدر خوش اخلاق دین ہے کہ اس نے غیر مسلم پڑوسی کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے: پڑوسی تین قسم کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جس کے دو حق ہوتے ہیں اور تیسرا وہ جس کے تین حقوق ہوتے ہیں۔ مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حقوق ہیں: حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔ مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام جبکہ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے:حقِ پڑوس۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9540) یہاں پر پڑوسیوں کے چند حقوق بیان کئے جارہے ہیں:

1۔ پڑوسی کی تکلیف برداشت کرنا:یاد رکھئے! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس ہے۔ (احیاء العلوم، 2/771)

2۔ قریبی پڑوسی کا حق: حدیث شریف میں قریبی پڑوسی کے حق کو زیادہ فرمایا گیا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے ایک میرے دروازے کےسامنے رہتا ہےاور دوسرا دروازے سے کچھ دور رہتا ہے اور بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی،لہذا دونوں میں کس کا حق زیادہ ہے تو آپ نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے۔ (بخاری، 2/174، حدیث: 2595)

3۔ حسنِ سلوک کرنا: حدیث شریف میں ہے: اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تُو کامل مومن ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ، 4/475، حدیث:4217)

4۔ پڑوسی کو وارث بنا دیا جاتا: حدیث شریف میں ہے: جبرائیل مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2526) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کے کس قدر حقوق ہیں لہٰذا ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اللہ کریم توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ اپنے ماننے والوں کی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے اس نے جہاں دیگر حقوق متعین کیے ہیں وہیں اس نے پڑوسیوں کے حقوق بھی مقرر کیے ہیں، پہلے پڑوسی کی تعریف ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: پڑوسی وہ ہے جس کا گھر متصل (ملا ہوا) ہو۔ پڑوسی کے متعلق خود اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی (کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

اب اسی تعلق سے یہاں پڑوسیوں کے پانچ حقوق بیان کیے جا رہے ہیں اگر ہم اس پر عمل پیرا ہوں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔

1۔ حسن سلوک کرنا: ایک پڑوسی کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اس سے اچھا برتاؤ کرے اسکی کوتاہیوں کو معاف کرے اگر پڑوسی اسے تکلیف پہنچائے تو اس پر صبر کرے صبر ہی نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت باعظمت میں عرض کی یارسول اللہ! مجھے یہ کیوں کر معلوم ہو کہ میں نے اچھا کیا یا برا؟ فرمایا: جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو بیشک تم نے اچھا کیا اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو بیشک تم نے برا کیا ہے۔

2۔ مددکرنا: اس کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ضرورت پڑنے پر اس کی مدد کی جائے اگر قرضدار ہو تو اسکا قرض ادا کیا جائے جب بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کرے اس کو دوا لا کر دے اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھے مصیبت میں اس کی مدد کرے اس کو تسلی دے اس کا ساتھ نہ چھوڑے، غرض ہر ممکن تعاون کرے۔

3۔ اپنے شر سے بچانا: پڑوسی کو اپنے شر سے محفوظ رکھا جائے اس کو تنگ نہ کرے اس کی چھت پر سے اس کے گھر میں نہ جھانکے اس کی دیوار میں سوراخ کر کے،صحن میں مٹی ڈال کر،گھر میں پرنالہ بنا کر یا پانی کا راستہ نکال کر اس کو تنگ نہ کرے کہ حدیث مبارکہ میں ہے: وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کا پڑوسی اس کی آفتوں سے امن میں نہیں ہے۔ (مسلم، ص43، حدیث: 46)

4۔ کھانا کھلانا: جب پڑوسی بھوکا ہو تو اس کو کھانا کھلائے اگر میوہ خریدے تو اسے بھی بھجوائے اگر ایسا نہ کر سکتا ہو تو چھپ کر کھائے جب کھانا بنائے تو شوربا زیادہ بڑھا دے تاکہ پڑوسی کو بھی دے سکے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے یعنی مومن کامل نہیں۔ (شعب الایمان، 3/225، حدیث: 3389)

5۔ اس کا اکرام کرنا: یہاں ہمسائے کے حقوق بیان کیے جا رہے ہیں اس کا ایک حق یہ بھی ہےکہ اس کی عزت کی جائے اور اس کا اکرام کیا جائے۔ اس کی عزت کو پامال نہ کیا جائے اس کے جو عیب معلوم ہوں انہیں پوشیدہ رکھا جائے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے کہہ دو کہ ہمسائے کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

اس کے علاوہ بھی پڑوسیوں کے بہت سے حقوق ہیں لیکن آج کل ہمارے معاشرے میں پڑوسیوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا اللہ پاک ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور دیگر حقوق کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بھی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دین اسلام محض چند عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام میں ہر کسی کے حقوق کو واضح کیا گیا ہے اس لیے جہاں والدین، بہن بھائی، اولاد، رشتےداروں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے وہیں پڑوسیوں کے حقوق کی طرف بھی خصوصی توجہ دلائی گئی ہے۔ پڑوسی سے مراد آس پاس کے مکان، دکان،فلیٹ، یا دیگر عمارتوں میں رہنے والے لوگ ہیں۔

حقوق حق کی جمع ہے جس کے معنی ہیں فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔ اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے، قرآن پاک پارہ 4سورہ نساء آیت نمبر 36میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ حدیث پاک میں ہے: جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6014) مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پڑوسیوں کے 5 حقوق احادیث مبارکہ کی روشنی میں پیشِ خدمت ہیں:

1۔ عیب کی پردہ پوشی کرنا: تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کرے تو ایک مسلمان ہمیشہ یہ ہی چاہے گا کہ اس کے عیب کی پردہ پوشی کی جائے تو اس کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے عیب کی بھی پردہ پوشی کرے اور اس کا پڑوسی اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے۔ نبی کریم ﷺ نے پڑوسی کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو،اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو،اگر قرض مانگے تو اسے قرض دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائے تو اس کے عیب کی پردہ پوشی کرو۔ (معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)

2۔ ایذا رسانی سے گریز: یہ ایک پڑوسی کا ہم پر حق ہے کہ ہم اسے کسی بھی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائیں۔ ایسی ہر بات سے بچیں جو انہیں تکلیف میں مبتلا کرے۔ اس بات کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہو تو خود کو اپنے پڑوسی کی جگہ پر رکھ کر سوچا جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کی ضرر رسانیوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔ (مسلم، ص43، حدیث: 46)

3۔ حسن سلوک کرنا: ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔اس کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً اپنے پڑوسی سے خندہ پیشانی سے ملا جائے،اس سے ہمیشہ مسکرا کر بات کی جائے وغیرہ۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 48 )

4۔ پڑوسی کا خیال رکھنا: ایک پڑوسی کا یہ بھی حق ہے کہ تنگی میں اس کی مدد کی جائے اور ہر طرح سے اس کا خیال رکھا جائے۔ اگر وہ مالی حوالے سے کمزور ہو تو اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مالی امداد کی جائے۔ اگر پڑوسی بھوکے ہوں تو ان کو کھانا فراہم کیا جائے۔ لیکن مدد کرنے میں اس چیز کا خیال رکھا جائے کہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو خود شکم سیر ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو وہ ایمان دار نہیں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث:12741)

اس حدیث مبارکہ سے پڑوسی کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو ایمان والا قرار نہیں دیتیں کہ جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔

5۔ تحائف دینا: یہ ایک پڑوسی کا حق ہے کہ کچھ تحائف کا بھی لین دین رکھا جائے اور اس کے دیئے ہوئے تحفے کو حقیر بھی نہ سمجھا جائے، چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! جب شوربا والا سالن بناؤ تو پڑوسیوں کو اس میں سے دینے کے لیے کچھ پانی بڑھا لو تاکہ اس کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625)

اگر پڑوسیوں کے حقوق کے حوالے سے دینی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے تو اس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے میں بہت کوتاہی کرتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اور شریعت کے اندر رہ کر اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ عبادتِ الٰہی کا طریقہ ہو یا اطاعتِ نبوی کا سلیقہ ہو، والدین سے حسنِ سلوک کا انداز ہو،تجارت و معشیت کے اصول ہوں،جزاء و سزا کے قانون ہوں یا حقوق العباد ہوں۔ اسلام کی یہ رہنمائی ہر مقام پر، ہر موڑ پر موجود ہے اور اسلام کی یہ رہنمائی کل بھی موجود تھی آج بھی موجود ہے اورتا قیامت موجود رہےگی۔ واضح رہے کہ حقوق العباد بھی دین کا ایک انتہائی اہم شعبہ ہے اور انہیں شعبوں میں سے ایک شعبہ پڑوسیوں کے حقوق بھی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ اس آیت میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ کا بندوں پر حق یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کے آپس میں حقوق کئی طرح کے ہیں جن میں سے ایک قسم پڑوسیوں کے حقوق ہیں۔

اسلام نے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے پر بہت زور دیا ہے اور پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کی صرف ترغیب نہیں دی بلکہ اسکی حدود مقرر فرما کر باہمی خوشگوار تعلقات پر بہت زور دیا ہے۔اسی سلسلے میں دین اسلام نے ہر انسان پر اس کے پڑوسی کے کچھ حقوق عائد فرمائے ہیں۔

پڑوسی کسے کہتے ہیں؟ پڑوسی کو عربی میں جار کہتے ہیں۔ وہ پڑوسی جو رشتہ دار ہو، یا وہ پڑوسی جو مسلمان ہو، یا وہ پڑوسی جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو،قریب کا پڑوسی کہلاتا ہے اور وہ پڑوسی جو مسلمان نہ ہو،یا جو رشتہ دار نہ ہو،یا جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو، دور کا پڑوسی کہلاتا ہے۔

پڑوسیوں کے 5حقوق درج ذیل ہیں:

1۔ پڑوسیوں کا خیال رکھنا: حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبریل امین مجھے پڑوسیوں کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ انہیں وارث بنا دیں گے۔(بخاری، 4/104، حدیث: 6014)ہمارے آج کے معاشرے میں اس حق میں بہت لا پرواہی برتی جا رہی ہے۔ چغلی، حسد، جھوٹ جیسے گناہوں کا ارتکاب بہت بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ اپنے مسلمان بھائی کا خیال رکھنا کامل ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔

2۔ تعزیت کرنا: تعزیت کا معنیٰ ہے تسلی دینا۔ پڑوسی کو اگر کوئی تکلیف پہنچے تو اس کی تعزیت کریں۔ اگر اس کی تکلیف کو دور کرنا ممکن ہو تو دور کریں اگر ممکن نہ ہو تو تسلی دیں۔ یاد رہے کہ اس مقصد سے تعزیت کرنا کہ ان کا غم تازہ ہو، تکلیف میں اضافہ ہو اس طرح تعزیت کرنا جائز نہیں۔ بلکہ تعزیت سے مراد ہر وہ کام اختیار کرنا جس سے غمزدہ کا غم شرعی حدود کے مطابق کم ہو تعزیت کہلاتا ہے۔

3۔ تحفہ بھیجنا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے ابو ذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2625)ہمسایوں کو تحفہ بھیجنے کا حکم اس لیے ہے کہ اس سے آپس میں پیار و محبت بڑھتی اور خوشگوار تعلقات قائم ہوتے ہیں۔

4۔ ایذا رسانی سے پرہیز کرنا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! وہ ہر گز مومن نہیں ہوسکتا (تین مرتبہ یہ جملہ ارشاد فرمایا) عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول کون؟ فرمایا: جس کی مصیبت کی وجہ سے اس کا پڑوسی امن میں نہ ہو۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

5۔ عیادت کرنا: پڑوسی اگر بیمار ہو تو اس کی مزاج پرسی کرے کہ عیادت کرنا سنت مبارکہ ہے اور جس طرح مدد کی ضرورت ہو، مدد کرے۔

اللہ پاک ہمیں ہمارے اسلاف کی راہ پر چلتے ہوئے پڑوسی کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


کہا جاتا ہے ”ہمسایہ اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں“ مگر افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے، قرآن کریم میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا، بہرحال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں، ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگیے۔ عبادات کی درستی سے بھی زیادہ اہم ہے معاملات کی درستی، پڑوسی سے ہر وقت معاملہ رہتا ہے اس لیے اس سے اچھا برتاؤ کرنا بہت ضروری ہے، اس کے بچوں کو اپنی اولاد سمجھیے، اس کی عزت و ذلت کو اپنی عزت و ذلت سمجھیے، پڑوسی اگر کافر بھی ہو تب بھی پڑوسی کے حقوق ادا کیجیے۔ یاد رکھیے! ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے جو ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی کا تقاضا کرتی ہے، ایک مسلمان جن باتوں کا مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے، یہاں تک کہ حدیث پاک میں کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا، نیز ایک حدیث پاک میں یوں فرمایا: جو اپنے پڑوسی کا حق تلف کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ (مطالب عالیہ، 7/118، حدیث: 2604) نیز پڑوسی کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث پاک سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ارشاد ہوا: حضرت جبرائیل مجھے ہمیشہ پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے وارث بناکر چھوڑیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)جہاں تک پڑوسی کے حقوق کا تعلق ہے تو جان لینا چاہیے کہ پڑوسی کے حقوق عام مسلمانوں کے حقوق سے بھی زیادہ ہیں۔ آئیے پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں حکمِ ربانی سنتے ہیں: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ معزز قارئین کرام! بہت سی احادیث مبارکہ میں پڑوسیوں کے کئی حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

پڑوسی کا حق کیا ہے: نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ پھر ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرو، اگر تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو، اگر محتاج ہو تو اس کی حاجت پوری کرو، اگر بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کرو، اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے اونچا گھر نہ بناؤ کہ اسے ہوا نہ پہنچے، اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر تم کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کو بھی کچھ بھیجو، اگر ایسا نہ کرسکو تو چھپا کر لے جاؤ اور اپنے بچوں کو بھی وہ پھل گھر سے باہر نہ لانے دو کہ پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین ہوں گے اور اپنی ہنڈیا کی خوشبو سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔ یہ فرمانے کے بعد آ پ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کرسکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560)

عزت کرنا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کی عزت کرنی چاہیے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)اور ایک دوسری روایت میں ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کا اکرام کرے جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ (مسلم، ص 44، حدیث: 47) حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا یہودی پڑوسی سفر میں گیا اس کے بال بچے گھر رہ گئے، رات کو یہودی کا بچہ روتا تھا، آپ نے پوچھا کہ بچہ کیوں روتا ہے، یہودن بولی گھر میں چراغ نہیں ہے بچہ اندھیرے میں گھبراتا ہے، اس دن سے آپ روزانہ چراغ میں خوب تیل بھر کر روشن کر کے یہودی کے گھر بھیج دیا کرتے تھے، جب یہودی لوٹا اس کی بیوی نے یہ واقعہ سنایا یہودی بولا کہ جس گھر میں بایزید کاچراغ آگیا وہاں اندھیرا کیوں رہے وہ سب مسلمان ہوگئے۔ (مراۃ المناجیح، 6/817)

تکلیف نہ دینا: تاجدار رسالت ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو ہرگز تکلیف نہ دے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 47) حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: پڑوسی کی حاجت پوری کرنے کے لیے اس کی مدد کرے، اس سے برائی دور کرے اور اس پر حصوصی عطائیں کرے تاکہ وعید کا مستحق نہ ہو۔ مزید فرماتے ہیں: حضرت قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: جو شریعت اسلامیہ کا التزام کرنا چاہیے اس کے لیے پڑوسی اور مہمان کا اکرام اور ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا بھی لازم ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 8/69، تحت الحدیث: 4243)

خیال رکھنا: حدیث پاک میں پڑوسیوں سے خیرخواہی کرنے کی ترغیب آئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! جب شوربا پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔ (مسلم، 1413، حدیث: 2625)

پڑوسیوں کے متفرق حقوق: پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے، ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے، ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے، جب وہ بیمار ہوں تو ان عیادت کرے، مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے، مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے، خوشی میں ان کو مبارکباد دے، ان کی خوشی میں شرکت کرے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے، اپنے گھر کی چھت پر سے ان کے گھر میں مت جھانکے، ان کی دیوار پر شہتیر رکھ کر ان کے پرنالے میں پانی گراکر اور ان کے صحن میں مٹی وغیرہ ڈال کر انہیں تکلیف نہ پہنچائے، ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے، جو کچھ وہ اپنے گھر لے جارہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے، اگر ان کے عیوب اس پر ظاہر ہوں تو انہیں چھپائے، اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو فورا ان کی مدد کرے، پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے، ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے، ان کی مستورات کے سامنے نگائیں نیچی رکھے، ان کی خادمہ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھے، ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے، دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں ان کی رہنمائی کرے۔

پڑوسیوں کو تکلیف دینے کی مختلف صورتیں: اس کے دروازے کے سامنے کچرا ڈال دینا، دروازے کے پاس شور کرنا، بچوں کا بالخصوص سونے کے اوقات میں شور کرنا، وقت بےوقت کیل وغیرہ ٹھونکنا، دیوار میں سوراخ کرنے کے لیے ڈرل مشین چلانا، مصالحہ وغیرہ پیسنے کے لیے رات کے اوقات میں آواز دینے والا گرینڈر چلانا، ایک ہی بلڈنگ میں رہنے کی صورت میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے زور زور سے پاؤں چٹخانا، اونچی آواز سے ٹیپ ریکارڈر یا ڈیک وغیرہ بجانا، اپنے گھر کا فرش دھونے کے بعد پانی پڑوسیوں کے گھر کے سامنے چھوڑ دینا، ان کے بچوں کو جھاڑنا مارنا وغیرہ۔ اللہ پاک ہمیں ان تمام باتوں سے بچائے۔

یاد رکھیے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے، کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا، لہٰذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے سے پیش آئے۔

معزز قارئین کرام! اسلام میں پڑوسی کے حقوق کی بہت اہمیت ہے، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھیں اور جس طرح ممکن ہو ان کے ساتھ باہمی تعاون بھی کریں، اس سے نہ صرف معاشرے میں امن و امان قائم ہوگا بلکہ ایک دینی معاشرہ بھی تشکیل پائے گا جو دین اسلام کے افکار و احکام کی عکاسی کرتا نظر آئے گا۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے پڑوسیوں کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔


انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور ان کی خوشی و نا خوشی کا زندگی کے چین و سکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ و بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے، دنیا کا ہر انسان ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کی نصرت و حمایت کا محتاج ہوتا ہے، اگر ایک بھوکا ہے تو دوسرے کا حق ہے کہ اپنے کھانے میں اسے بھی شریک کرے، اگر ایک بیمار ہے تو دوسرا اس کی عیادت اور تیمار داری کرے، اگر ایک کسی آفت و مصیبت اور کسی رنج و غم میں مبتلا ہو تو دوسرا اس کے رنج و غم میں شریک ہو کر اس کی تسلی کا باعث بنے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوسی کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی اور اس کو جزوِ ایمان اور داخلِ جنت کی شرط اور اللہ و رسول ﷺ سے محبت کا معیار قرار دیا ہے۔

1۔ ایک حدیث میں نبی پاک ﷺ نے تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا: خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی کون؟ فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

2۔ حضور اکرم ﷺ نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتو! کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کے لیے ہدیہ و صدقہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ بکری کا ایک کُھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، 2/165، حدیث: 2566)

3۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی پر خصوصی توجہ دلائی ہے تاکہ ہماری کوتاہی سے کسی کا کوئی حق ہماری طرف نہ رہ جائے، پیارے آقا ﷺ کا ارشاد ہے: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے اور اپنی زبان سے اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

4۔ ایک دن نبی پاک ﷺ نے وضو فرمایا تو صحابہ کرام آپ کے وضو کا پانی اپنے بدن اور چہرے وغیرہ پر ملنے لگے تو سرکار دو عالم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس عمل پر تمہیں کون سی چیز آمادہ و برانگیختہ کر رہی ہے اور تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تو صحابہ کرام کا جواب تھا کہ بس اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے، تب آپ نے ارشاد فرمایا: سنو! جو شخص یہ پسند کرتا ہو اور جس کی یہ خواہش ہو کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت نصیب ہوجائے یا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس سے محبت ہو تو اسے تین باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے: جب بات کرے تو سچ بولے، جب کوئی امانت اس کے پاس رکھی جائے تو امانت داری کے ساتھ اس کو ادا کرے اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ (شعب الایمان، 2/201، حدیث: 1533)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام فرائض کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا فرمائے۔


پڑوسی وہ ہیں جو ہمارے گھر کے قریب میں رہتے ہوں پڑوسیوں کا ہم پر بہت بڑا حق ہے، اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہوں اور مسلمان بھی ہوں تو اس کے تین حق ہیں: پڑوسی کا، قرابت داری کا ار اسلام کا حق۔ اسی طرح اگر وہ قریبی ہے لیکن مسلمان نہیں تو اس کے دو حق ہیں: پڑوسی اور قرابت داری کا۔ اور اگر رشتے میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا۔ اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور ان کے حقوق پہچانے اور ادا کیے جائیں۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے والدین کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں، یتیموں مساکین کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے ساتھ بھی نیکی کرنے یعنی حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی کے ایک معنی حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے کہ وہ پروسی جس سے تمہاری رشتہ داری ہو اور وہ جس سے رشتہ داری نہ ہو دونوں کے ساتھ اللہ نے نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور دیگر مذاہب کے برعکس جس میں گھربار، بیوی بچے اور رشتہ دار و اقربا سب کچھ چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جانے اور رہبانیت کی زندگی گزارنے کی تاکید کی گئی ہے اس کی جگہ اسلام نے یہ بتایا کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی بہت ضروری ہیں اور بعض اعتبار سے انہیں حقوق اللہ سے بھی آگے رکھا جاسکتا ہے، کیونکہ قیامت کے دن اللہ پاک اپنا حق معاف کر دے گا لیکن اس نفسی نفسی کے عالم میں کوئی کسی کو معاف نہیں کرے گا اس دن ہر ایک کو اپنی نجات کی فکر ہوگی، قرآن پاک نے روز حشر کا بڑا ہولناک نقشہ کھینچا ہے کہ اس دن ہر شخص اپنے بھائی، ماں باپ سب کو بھول چکا ہوگا، حضور نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: خدا کی قسم وہ ایمان والا نہیں! عرض کی گئی کون یارسول اللہ؟ فرمایا: جس کا ہمسایہ اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

مؤمن مؤمن کے ساتھ متواضع ہوتا ہے اور ان کے سامنے جھکا رہتا ہے اور کافروں پر سخت ہوتا ہے اور ان پر کمزور نہیں پڑتا اسلام کے احترام اور تعظیم کی وجہ سے اور دین کو عزت بخشنے کے لیے، لیکن اس میں خیال رہے کہ ان کو تکلیف نہ دی جائے اور نہ ان کے ساتھ مومنوں جیسی دوستی اور محبت رکھی جائے۔

اللہ پاک ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ