اسلام ہمارا کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ اسلام ہمیں ہمسایوں کے ساتھ بھی بھلائی اور حسن سلو ک کرنے کا درس دیتا ہے معاشرے میں سب سے پہلا حسن سلوک کا حق دار پڑوسی ہو تا ہے۔ قرآن کریم میں بھی پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں تاکید فرمائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ قریب کے پڑوسی سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے پڑوسی سے مراد وہ ہے جو محلے دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو۔

اب پڑوسیوں کے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں: سلام میں پہل کرے، جب مدد طلب کرے اس کی مدد کرے، جب قرض مانگے تو قرض دے، اس کی محتاجی کو دور کرے، اس کی خوشی میں شرکت کرے، جو کچھ وہ اپنے گھر میں لے جارہا ہو اس پر نظر نہ گاڑے، اپنے گھر کی چھت پر سے اس کے گھر میں مت جھانکے، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جائے، اس کے عیوب پر پردہ ڈالے، جب اسے مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کو جائے، جب خوشی پہنچے تو اسے مبارکباد دے، جب غمی پہنچے تو اس کی غمی میں شریک ہو۔ (احیاء العلوم، 2/ 772)

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھا کرتے ان کی خبر گیری فرماتے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور جاتے، اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس لوٹ جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہو کر اس کے حق میں مغفرت کی دعا فرماتے اس کے اہل خانہ کو صبر کی تلقین فرماتے اور ان کو تسلی دیا کرتے۔ (معین الا رواح، ص 88 )

پڑوسیو ں کے حقو ق کے معاملے میں ہمارے بزرگان دین کا انداز کس قدر شاندار ہوا کرتا تھا۔ اللہ کریم ہمیں پڑوسیو ں کے حقوق کو احسن انداز میں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو تکلیف دینے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین