اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ قریب کے ساتھی سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو۔ (تفسیر صراط الجنان، 2/201)

تمام انسان ایک معاشرے میں رہتے ہیں اور اس معاشرے میں انسان کی مختلف لوگوں سے یا تو قرابت داری ہوتی ہے یا دوستی یا ہمسائیگی ہوتی ہے۔ دین اسلام نے جس طرح قرابت داروں اور دوستوں کے حقوق سکھائے ہیں اسی طرح پڑوسیوں کے بھی حقوق سکھائے۔ حدیث شریف میں ہے: کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہوجائے۔ (مسند براز، 5/392، حدیث: 2026) دین اسلام اس قدر خوش اخلاق دین ہے کہ اس نے غیر مسلم پڑوسی کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے: پڑوسی تین قسم کے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جس کے دو حق ہوتے ہیں اور تیسرا وہ جس کے تین حقوق ہوتے ہیں۔ مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حقوق ہیں: حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔ مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام جبکہ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے:حقِ پڑوس۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9540) یہاں پر پڑوسیوں کے چند حقوق بیان کئے جارہے ہیں:

1۔ پڑوسی کی تکلیف برداشت کرنا:یاد رکھئے! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس ہے۔ (احیاء العلوم، 2/771)

2۔ قریبی پڑوسی کا حق: حدیث شریف میں قریبی پڑوسی کے حق کو زیادہ فرمایا گیا۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے ایک میرے دروازے کےسامنے رہتا ہےاور دوسرا دروازے سے کچھ دور رہتا ہے اور بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی،لہذا دونوں میں کس کا حق زیادہ ہے تو آپ نے فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے۔ (بخاری، 2/174، حدیث: 2595)

3۔ حسنِ سلوک کرنا: حدیث شریف میں ہے: اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تُو کامل مومن ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ، 4/475، حدیث:4217)

4۔ پڑوسی کو وارث بنا دیا جاتا: حدیث شریف میں ہے: جبرائیل مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (مسلم، ص 1413، حدیث: 2526) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کے کس قدر حقوق ہیں لہٰذا ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اللہ کریم توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین