انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور ان کی خوشی و نا خوشی کا زندگی کے چین و سکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ و بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے، دنیا کا ہر انسان ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کی نصرت و حمایت کا محتاج ہوتا ہے، اگر ایک بھوکا ہے تو دوسرے کا حق ہے کہ اپنے کھانے میں اسے بھی شریک کرے، اگر ایک بیمار ہے تو دوسرا اس کی عیادت اور تیمار داری کرے، اگر ایک کسی آفت و مصیبت اور کسی رنج و غم میں مبتلا ہو تو دوسرا اس کے رنج و غم میں شریک ہو کر اس کی تسلی کا باعث بنے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوسی کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی اور اس کو جزوِ ایمان اور داخلِ جنت کی شرط اور اللہ و رسول ﷺ سے محبت کا معیار قرار دیا ہے۔

1۔ ایک حدیث میں نبی پاک ﷺ نے تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا: خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی کون؟ فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

2۔ حضور اکرم ﷺ نے عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے مسلمان عورتو! کوئی ہمسائی اپنی ہمسائی کے لیے ہدیہ و صدقہ کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ بکری کا ایک کُھر ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، 2/165، حدیث: 2566)

3۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی پر خصوصی توجہ دلائی ہے تاکہ ہماری کوتاہی سے کسی کا کوئی حق ہماری طرف نہ رہ جائے، پیارے آقا ﷺ کا ارشاد ہے: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے اور اپنی زبان سے اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

4۔ ایک دن نبی پاک ﷺ نے وضو فرمایا تو صحابہ کرام آپ کے وضو کا پانی اپنے بدن اور چہرے وغیرہ پر ملنے لگے تو سرکار دو عالم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس عمل پر تمہیں کون سی چیز آمادہ و برانگیختہ کر رہی ہے اور تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تو صحابہ کرام کا جواب تھا کہ بس اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے، تب آپ نے ارشاد فرمایا: سنو! جو شخص یہ پسند کرتا ہو اور جس کی یہ خواہش ہو کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت نصیب ہوجائے یا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس سے محبت ہو تو اسے تین باتوں کا اہتمام کرنا چاہیے: جب بات کرے تو سچ بولے، جب کوئی امانت اس کے پاس رکھی جائے تو امانت داری کے ساتھ اس کو ادا کرے اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ (شعب الایمان، 2/201، حدیث: 1533)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام فرائض کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا فرمائے۔